فیس بک، ٹویٹر ، اردو ویب، وغیرہ پر اردو تحریروں کو خوبصورت نستعلیق فونٹ میں پڑھنے کے لیے گوگل کروم ایکسٹنشن انسٹال کیجیے۔
خاص طور پر فیس بک پر اردو تحریر پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ اگر آپ گوگل کروم برائوسر استعمال کرتے ہیں تو ذیل میں دیے گیے لنک پر کلک کیجیے، ایکسٹنسن انسٹال کیجیے اور دلفریب...
غزل
(جگر بریلوی)
محبت تم سے ہے لیکن جدا ہیں
حسیں ہو تم تو ہم بھی پارسا ہیں
ہمیں کیا اس سے وہ کون اور کیا ہیں
یہ کیا کم ہے حسیں ہیں دل ربا ہیں
زمانے میں کسے فرصت جو دیکھے
سخنور کون شے ہیں اور کیا ہیں
مٹاتے رہتے ہیں ہم اپنی ہستی
کہ آگاہ مزاج دل ربا ہیں
نہ جانے درمیاں کون آ گیا ہے
نہ...
غزل
(فراق گورکھپوری)
زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا
تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا
خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا
حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا
نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا
رموز بے خودی بدلے تقاضائے خودی بدلا
بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں
نہیں بدلی...
السلام علیکم،
سب پاکستانیوں کی طرح میں بھی اردو میں کچھ الفاظ انگریزی کے بولتا ہوں جو کہ اردو میں رچ بس گئے ہیں۔ کیونکہ جتنی اردو میں بولتا ہوں اُسے سن کر ہی لوگوں و اختلاجِ قلب ہونے لگتا ہے سو انتہا پسندی سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
تاہم محفل پر لکھتے ہوئے میں کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ تر...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سرِ...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے
یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے
نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے
یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں
وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا
رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا
متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا
یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا
میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا
اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا
زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ
تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ
زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ
دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون
یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ
ان حسیں...
غزل
(محبوب خزاں)
جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں
نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم
وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں
تمام عمر یہ افسردگان محفل گل
کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں
فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا
کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
غزل
(شہریار)
دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی
اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی
رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں
مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی
لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم
کوئی کرن بھی تو اس دل میں ضو فشاں نہ رہی
میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا
یہ...
غزل
(شہریار)
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا
اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل
ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا
مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی
یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا
کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو
ہوا کے رخ کے بدلنے سے...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد
ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد
خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر
وہ خط تجھے بھی...
غزل
(کمار پاشی)
گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں
خالی ہاتھ کھڑے ہو پاشیؔ رکھ آئے تلوار کہاں
کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو
جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں
کیا حسرت سے دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ جگ مگ سے ساحل
ہائے ہمارے ہاتھوں سے بھی چھوٹے ہیں پتوار کہاں
ختم...
کبھی اِس مکاں سے گزر گیا، کبھی اُس مکاں سے گزر گیا
ترے آستاں کی تلاش میں، میں ہر آستاں سے گزر گیا
ابھی آدمی ہے فضاؤں میں، ابھی آدمی ہے خلاؤں میں
یہ نجانے پہنچے گا کس جگہ اگر آسماں سے گزر گیا
کبھی تیرا در، کبھی دربدر، کبھی عرش پر، کبھی فرش پر
غمِ عاشقی ترا شکریہ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا
یہ...
غزل
(آزاد گلاٹی)
ڈوب کر خود میں کبھی یوں بے کراں ہو جاؤں گا
ایک دن میں بھی زمیں پر آسماں ہو جاؤں گا
ریزہ ریزہ ڈھلتا جاتا ہوں میں حرف و صوت میں
رفتہ رفتہ اک نہ اک دن میں بیاں ہو جاؤں گا
تم بلاؤ گے تو آئے گی صدائے بازگشت
وہ بھی دن آئے گا جب سونا مکاں ہو جاؤں گا
تم ہٹا لو اپنے احسانات کی...
غزل
(آزاد گلاٹی)
ایک ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
کوئی تو مجھ سے بڑا ہے مجھ میں
انکساری مرا شیوہ ہے مگر
اک ذرا زعم انا ہے مجھ میں
مجھ سے وہ کیسے بڑا ہے کہیے
جب خدا میرا چھپا ہے مجھ میں
میں نہیں ہوں تو مرا کون ہے یہ
اتنے جنموں جو رہا ہے مجھ میں
وہی لمحے تو غزل چھیڑتے ہیں
جن کی گم گشتہ صدا...
غزل
(کمار پاشی)
ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے
میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے
دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو
ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے
ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری
زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے
گاہے گاہے اب بھی چلے...
اردو میں مستعمل فارسی محاورات اور ضرب الامثال کی ایک فہرست تیار کرنے کا ارادہ ہے۔ فارسی زبان و ادب سے لگاؤ رکھنے والے محفلین سے گزارش ہے کہ اس لڑی میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔
اس سلسلے کا آغاز ہم ہی کیے دیتے ہیں۔
من آنم کہ من دانم
اردو ترجمہ: میں جو کچھ ہوں، وہ میں خود ہی اچھی طرح جانتا...
اردو عر بی رسم الخط تو لازوال حیثیت رکھتا ہے مگر عہد حاضر میں اردو کی نئی ضرورت انگریزی رسم الخط جسے عرف عام میں رومن کہا جاتا ہے کیا یہ ممکن ہے آنے والے دنوں میں اردو محفل اردو کی ترقی و ترویج کے لیے شائع ہونے والا مواد رومن اردو میں کنورٹ دے یا پھر محفل کے تین رسم الخط نمایاں کر دیں ؟