میر

  1. فرخ منظور

    میر پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے ۔ میر تقی میر

    پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے لگنے نہ دے بس ہو تو اُس کے گوہر گوش کے بالے تک اُس کو فلک چشمِ مہ و خور کی پُتلی کا تارا جانے ہے آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ...
  2. فرخ منظور

    میر ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر ۔ میر تقی میرؔ

    ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر دست کش نالہ، پیش رو گریہ آہ چلتی ہے یاں علم لے کر مرگ اک ماندگی کاوقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک غمِ دوری چلے ہیں ہم لے کر بارہا صید گہ سے اس کی گئے داغِ یاس آہوئے حرم لے کر ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر...
  3. فرخ منظور

    میر دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار ۔ میر تقی میرؔ

    دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار ساقی تو ایک بار تو توبہ مری تُڑا توبہ کروں جو پھر تو ہے توبہ ہزار بار کیا زمزمہ کروں ہوں خوشی تجھ سے ہم صفیر آیا جو میں چمن میں تو جاتی رہی بہار کس ڈھب سے راہِ عشق چلوں، ہے یہ ڈر مجھے پھوٹیں کہیں نہ آبلے، ٹوٹیں کہیں نہ...
  4. فرخ منظور

    میر آہِ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا ۔ میر تقی میرؔ

    آہِ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا سمجھی نہ بادِ صبح کہ آ کر اٹھا دیا اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا پوشیدہ رازِ عشق چلا جائے تھا سو آج بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا اس موجِ خیزِ دہر میں ہم کو قضا نے آہ پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم...
  5. فرخ منظور

    میر جو اس شور سے میر روتا رہے گا ۔ میر تقی میر

    جو اس شور سے میر روتا رہے گا تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں جسے ابر ہر سال روتا رہے گا مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح تو کب تک مرے منھ کو دھوتا رہے گا بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے جرس کے بھی جو...
  6. فرخ منظور

    میر غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا ۔ میر تقی میرؔ

    غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا حسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ اس میں مجنوں کا ولے ماتم رہا جامۂ احرامِ زاہد پر نہ جا تھا حرم میں لیک نا محرم رہا زلفیں...
  7. فرخ منظور

    میر جدا جو پہلو سے وہ دلبر ِیگانہ ہوا ۔ میر تقی میر

    جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا طپش کی یاں تئیں دل نے کہ دردِ شانہ ہوا جہاں کو فتنہ سے خالی کبھو نہیں پایا ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید سرشک یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے ہزار حیف سرِ حرف اس سے وا نہ ہوا کھلا نشے...
  8. فرخ منظور

    میر دل جو زیرِ غبار اکثر تھا ۔ میر تقی میرؔ

    دل جو زیرِ غبار اکثر تھا کچھ مزاج ان دنوں مکدّر تھا اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن رات دن ہم تھے اور بستر تھا سرسری تم جہان سے گذرے ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا بعد اِک عمر جو ہوا معلوم دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا بار سجدہ ادا کیا تہِ تیغ کب سے...
  9. فرخ منظور

    میر کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا ۔ میر تقی میرؔ

    کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک کسو دن آپ میں بھی آیئے گا سب سے مل چل کہ حادثے سے پھر کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پایئے گا نہ موئے ہم اسیری میں تو نسیم کوئی دن اور باؤ کھایئے گا کہیے گا اس سے قصۂ مجنوں یعنی پردے میں غم سنایئے گا اس کے پابوس کی توقع...
  10. فرخ منظور

    میر بارہا گورِ دل جھنکا لایا ۔ میر تقی میرؔ

    بارہا گورِ دل جھنکا لایا اب کے شرطِ وفا بجا لایا قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل سارے عالم میں مَیں دکھا لایا دل کہ اِک قطرہ خوں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بلا لایا سب پہ جس بار نےگِرانی کی٭ اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا دل مجھے اس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا ابتدا ہی میں مر گئے سب...
  11. فرخ منظور

    میر تابہ مقدور انتظار کیا ۔ میر تقی میر

    تابہ مقدور انتظار کیا دل نے اب زور بے قرار کیا دشمنی ہم سے کی زمانےنے کہ جفا کار تجھ سا یار کیا یہ توہّم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے طائرِ سدرہ تک شکار کیا صد رگ ِجاں کو تاب دے باہم تیری زلفوں کا اک تار کیا ہم فقیروں سے بے ادائی کیا آن بیٹھے جو تم نے...
  12. فرخ منظور

    میر گُل کو محبوب ہم قیاس کیا ۔ میر تقی میرؔ

    گُل کو محبوب ہم قیاس کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا دل نے ہم کو مثالِ آئینہ ایک عالم کا روشناس کیا کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن شوق نے ہم کو بے حواس کیا عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے قیس کی آبرو کا پاس کیا دَور سے چرخ کے نکل نہ سکے ضعف نے ہم کو مور طاس کیا صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی کیا پتنگے نے...
  13. فرخ منظور

    میر منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا ۔ میر تقی میرؔ

    منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا تھے بُرے مغ بچوں کے تیور لیک شیخ مے خانہ سے بھلا کھسکا داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا قطعہ بحر کم ظرف ہے بسانِ حباب کاسہ لیس اب ہوا ہے تُو جس کا فیض اے ابر، چشمِ تر...
  14. فرخ منظور

    میر غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا ۔ میر تقی میر

    غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا جس دم...
  15. فرخ منظور

    میر چندے بجا ہے گریۂ اندوہ و آہ کر ۔ میر تقی میر

    چندے بجا ہے گریۂ اندوہ و آہ کر ماتم کدے کو دہر کے تو عیش گاہ کر کیا دیکھتا ہے ہر گھڑی اپنی ہی دھج کو شوخ آنکھوں میں جان آئی ہے ایدھر نگاہ کر رحمت اگر یقینی ہے تو کیا ہے زہد، شیخ اے بے وقوف جائے عبادت، گناہ کر چھوڑ اب طریقِ جور کو اے بیوفا سمجھ نبھتی نہیں یہ چال کسو دل میں راہ کی چسپیدگیِ داغ...
  16. فرخ منظور

    میر لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں ۔ میر تقی میر

    لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں سینہ سپر کیا تھا، جن کے لیے بلا کا وے بات بات میں اب تلوار کھینچتے ہیں مجلس میں تیری ہم کو کب غیر خوش لگے ہے ہم بیچ اپنے اس کے دیوار کھینچتے ہیں بے طاقتی نے ہم کو چاروں طرف سے کھویا تصدیع گھر میں بیٹھے ناچار کھینچتے ہیں...
  17. فرخ منظور

    میر جان ہے تو جہان ہے پیارے ۔ میر تقی میر

    میر عمداً َ بھی کوئی مرتا ہے جان ہے تو جہان ہے پیارے مکمل غزل قصد گر امتحان ہے پیارے اب تلک نیم جان ہے پیارے سجدہ کرنے میں سر کٹیں ہیں جہاں سو ترا آستان ہے پیارے گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر یہ ہماری زبان ہے پیارے کام میں قتل کے مرے تن دے اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے...
  18. فرخ منظور

    میر اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ۔ میر تقی میر

    اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خوناب روز و شب اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا آتے تھے آنکھوں سے چلے سیلاب روز و شب اُس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے رہتا تھا پاس وہ دُرِ نایاب روز و شب قدرت تو دیکھ عشق کی، مجھ سے ضعیف کو رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب...
  19. فرخ منظور

    میر خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ۔ میر تقی میر

    خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز آتشِ دل نہیں بجھی شاید قطرہء اشک ہے شرارہ ہنوز اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز لب پہ آئی ہے جان کب کی ہے اس کے موقوف یک اشارہ ہنوز عمر گزری دوائیں کرتے میرؔ دردِ دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز (میر تقی میرؔ)
  20. فرخ منظور

    میر ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز ۔ میر تقی میر

    ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں پھرتا ہوں منہ پہ خاک ملے، جا بجا ہنوز خط کاڑھ لا کے تم تو مُنڈا بھی چلے ولے ہوتی نہیں ہماری تمہاری صفا ہنوز غنچے چمن چمن کھلے اس باغِ دہر میں دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز احوال نامہ...
Top