میر دل جو زیرِ غبار اکثر تھا ۔ میر تقی میرؔ

فرخ منظور

لائبریرین
دل جو زیرِ غبار اکثر تھا
کچھ مزاج ان دنوں مکدّر تھا

اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا

سرسری تم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم
یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا

بعد اِک عمر جو ہوا معلوم
دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا

بار سجدہ ادا کیا تہِ تیغ
کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا

کیوں نہ ابرِ سیہ سفید ہوا
جب تلک عہد دیدۂ تر تھا

اب خرابا ہوا جہان آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا

قطعہ
بے زری کا نہ کر گلہ غافل
رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا

اتنے منعم جہان میں گذرے
وقتِ رحلت کے کس کنے زر تھا

صاحبِ جاہ و شوکت و اقبال
اک ازاں جملہ اب سکندر تھا

تھی یہ سب کائنات زیرِنگیں
ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا

لعل و یاقوت ہم زر و گوہر
چاہیے جس قدر میسر تھا

آخرِ کار جب جہاں سے گیا
ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا

عیب طولِ کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا

خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میرؔ معلوم ہے قلندر تھا

(میر تقی میرؔ)
 
Top