میر

  1. فرخ منظور

    میر میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں ۔ میر تقی میر

    میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر میں ورنہ وہی خلوتیِ رازِ نہاں ہوں جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر صد رنگ مری موج ہے، میں طبعِ‌رواں ہوں پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح میں شانہ صفت سایہ روِ زلفِ بُتاں ہوں دیکھا...
  2. فرخ منظور

    میر پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ ۔ میر تقی میر

    پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں مکمل غزل مشہور ہیں دلوں کی مرے بےقراریاں جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں چہرے پہ جیسے زخم ہےناخن کا ہر خراش اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں سو بار ہم نے گُل کے کہے پر چمن کے بیچ بھر دی ہیں آبِ‌ چشم سے راتوں کو...
  3. فرخ منظور

    میر زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں ۔ میر تقی میر

    زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں نہ کھول اے یار! میرا گور میں منھ کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں رکھا کر ہاتھ دل پر، آہ کرتے نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں جلے دل کی مصیبت اپنی سن کر لگی ہے آگ سارے تن بدن میں نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی مسافر ہی رہے اکثروطن میں...
  4. فرخ منظور

    میر آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں ۔ میر تقی میر

    آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں مہلت ہمیں بسانِ شرر کم بہت ہے یاں یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں حاصل ہے کیا سوائے ترائی کے دہر میں اُٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں مائل بغیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں ہم...
  5. ع

    میر تجھ کو ہے سوگند خدا کی میری اُور نگاہ نہ کر

    تجھ کو ہے سوگند خدا کی میری اُور نگاہ نہ کر چشم سیاہ ملاکر یوں ہی مجھ کو خانہ سیاہ نہ کر عشق ومحبت یاری میں اک لطف رکھے ہے کرنا ضبط چھاتی پر جو ہو کوہ الم کا تو بھی نالہ و آہ نہ کر مانگ پناہ خدا سے بندے دل لگنا اک آفت ہے عشق نہ کر زنہار نہ کر اللہ نہ کر باللہ نہ کر گھاس ہے مے خانے کی...
  6. فاتح

    میر دلی کے نہ تھے کوچے، اوراق مصور تھے ۔ میر تقی میر

    کچھ موجِ ہوا پیچاں، اے میر! نظر آئی شاید کہ بہار آئی، زنجیر نظر آئی دلّی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی مغرور بہت تھے ہم، آنسو کی سرایت پر سو صبح کے ہونے کو تاثیر نظر آئی گل بار کرے ہے گا اسبابِ سفر شاید غنچے کی طرح بلبل دل گیر نظر آئی اس کی تو دل آزاری بے...
  7. طارق شاہ

    محمد حفیظ الرحمٰن :::: جو تِرے آستاں سے اُٹھتا ہے :::: Mohammed Hafeez ur Rehman

    غزل محمد حفیظ الرحمٰن جو تِرے آستاں سے اُٹھتا ہے رنگ و بُو کے جہاں سے اُٹھتا ہے منزلیں اُس غبار میں گمُ ہیں جو تِرے کارواں سے اُٹھتا ہے غور سے سُن اِسے ، کہ یہ نالہ میرے قلبِ تپاں سے اُٹھتا ہے یہ کسی اور آگ کا ہے دُھواں یا مِرے آشیاں سے اُٹھتا ہے ہے مُنافق وہی ، کہ جس کا خمِیر فکرِ سُود و...
  8. فاتح

    میر میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی ۔ میر تقی میر

    محمد وارث صاحب نے لفظ اللہ کے وزن کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی مشہور زمانہ غزل وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ" کا حوالہ دیا کہ اس غزل میں "اللہ اللہ" کو کس وزن پر باندھا گیا ہے تو ہمارے ذہن میں میر تقی میر کی اس غزل کا مصرع آ گیا کہ اس میں میر نے "اللہ اللہ" کو...
  9. فرخ منظور

    میر مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا ۔ میر تقی میر

    مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا اِک مُغ بچہ اتار کے عمّامہ لے گیا داغِ فراق و حسرتِ وصل، آرزوئے شوق میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا پہنچا نہ پہنچا، آہ گیا، سو گیا غریب وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا اس راہ زن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ اِک مرتبہ جو میر کا جی جامہ لے گیا (میر تقی میر)
  10. مدیحہ گیلانی

    میر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے ۔۔۔ میر تقی میر

    دہر بھی میرؔ طُرفہ مقتل ہے جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے کثرتِ غم سے دل لگا رُکنے حضرتِ دل میں آج دنگل ہے روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں لیکن اب تک تو روزِ اوّل ہے چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو دل ہے یا خانۂ مقفل ہے سینہ چاکی بھی کام رکھتی...
  11. فاتح

    میر باندھے کمر سحر گہ آیا ہے میرے کیں پر ۔ میر تقی میر

    باندھے کمر سحر گہ آیا ہے میرے کیں پر جو حادثہ فلک سے نازل ہوا زمیں پر اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر کنجِ قفس میں جوں توں کاٹیں گے ہم اسیراں سیرِ چمن کے شایاں اپنے رہے نہیں پر جوں آب گیری کردہ شمشیر کی جراحت ہے ہر خراشِ ناخن رخسارہ و جبیں پر آخر کو...
  12. فرخ منظور

    میر مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش۔ میر تقی میر

    مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں کیا کریے یاں نہیں ہے...
  13. فرخ منظور

    میر کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش ۔ میر تقی میر

    کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش لے ہاتھ میں قفس ٹک، صیّاد چل چمن تک مدّت سے ہے ہمیں بھی سیرِ بہار خواہش نَے کچھ گنہ ہے دل کا نےَ جرمِ چشم اس میں رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش حالآنکہ عمر ساری مایوس گزری تس پر کیا کیا رکھیں ہیں اس کے...
  14. فرخ منظور

    میر اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا ۔ میر تقی میر

    اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا میرے حضور شمع...
  15. طارق شاہ

    میر حرَم کو جائیے، یا دیر میں بسر کریے

    غزلِ میر تقی میر حرَم کو جائیے، یا دیر میں بَسر کریے تِری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے کٹے ہے، دیکھئے یُوں عمْر کب تلک اپنی کہ سُنئے نام تِرا اور چشم تر کریے وہ مست ناز تو مچلا ہے کیا جتائیے حال جوبے خبر ہو بھلا اُس کے تئیں خبرکریے ہُوا ہے، دن تو جُدائی کا سو تَعَب سے شام شبِ فِراق کِس...
  16. فرخ منظور

    میر کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں ۔ میر تقی میر

    کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے جیسے اسیرِ تازہ بے تاب ہو قفس میں جاں کاہ ایسے نالے لوہے سے تو نہ ہوویں بے تاب دل کسو کا رکھا ہے کیا...
  17. فرخ منظور

    میر شعر دیواں کے میرے کر کر یاد ۔ میر تقی میر

    شعر دیواں کے میرے کر کر یاد مجنوں کہنے لگا کہ "ہاں استاد!" خود کو عشقِ بتاں میں بھول نہ جا متوکّل ہو، کر خدا کو یاد سب طرف کرتے ہیں نکویاں کی کس سے جا کر کوئی کرے فریاد وحشی اب گرد باد سے ہم ہیں عمر افسوس کیا گئی برباد چار دیواریِ عناصر میر خوب جاگہ ہے، پر ہے بے بنیاد (میر تقی میر)...
  18. محمد بلال اعظم

    میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے:

    میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے: سوداؔ: مرزا سوداؔ جو میرؔ صاحب کے ہمعصر اور مدِّ مقابل تھے، کہتے ہیں سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرح ناسخ: شیخ ناسخؔ جو اپنی تنک مزاجی اور بد دماغی کے لئے مشہور ہیں، کہتے ہیں شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی...
  19. فاتح

    میر صبح عید اپنی ہے بدتر شب ماتم سے بھی ۔ میر تقی میرؔ

    دل کو تسکین نہیں اشکِ دما دم سے بھی اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی ہم نشیں کیا کہوں اس رشکِ مہِ تاباں بِن صبحِ عید اپنی ہے بدتر شبِ ماتم سے بھی کاش اے جانِ المناک، نکل جاوے تُو اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی آخرِ کار محبت میں نہ نکلا کچھ کام سینۂ چاک و دلِ پژمردہ مژہ نم سے بھی...
  20. مزمل شیخ بسمل

    ’’میر کی ہندی بحر کی حقیقت‘‘

    کیوں جناب؟ کچھ جانتے ہیں کہ کیا ہے ہندی بحر؟ یقیناً آپ نے یہی سن رکھا ہوگا اس بحر کے بارے میں کے اس بحر کو میرؔ نے ہندی پنگل کی بحور میں سے چن کر استعمال کیا اور اتنا استعمال کیا کہ انہیں کے نام سے منسوب ہوگئی۔ یا اکثر یہ بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کے میرؔ نے اردو میں مروجہ فارسی عروض...
Top