میر

  1. فاتح

    میر مشہور چمن میں تری گل پیرہَنی ہے ۔ میر تقی میر

    مشہور چمن میں تِری گُل پَیرہَنی ہے قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدَنی ہے عریانیِ آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ کُشتہ ہے ترا اور یہی بے کفَنی ہے سمجھے ہے نہ پروانہ نہ تھانبے ہے زباں شمع وہ سوختنی ہے تو یہ گردن زدَنی ہے لیتا ہی نکلتا ہے مرا لختِ جگر اشک آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کَنی ہے بلبل کی...
  2. محمد بلال اعظم

    میں محبت میں روایات سے باہر نہ گیا

    چند دن پہلے sms میں ایک غزل ملی تھی، جس کی بحر درج ذیل تھی فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن اس کی ردیف بہت پسند آئی، سو اس میں چھوٹی سی کوشش اصلاح کے لئے وہ جو اک رات ترے سنگ گزاری تھی میں نے آج تک میں اُسی اک رات سے باہر نہ گیا دل تو جانے کہاں تک تیرے خیالوں میں گیا میں مگر آج بھی جذبات سے باہر...
  3. فرخ منظور

    میر شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں ۔ میر تقی میر

    یہ غزل خاص طور پر توصیف امین صاحب کی نذر۔ شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں ہو کے عاشق ترے، جان و...
  4. فرخ منظور

    مہدی حسن شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں ۔ مہدی حسن

    شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں گلوکار: مہدی حسن کلام: میر تقی میر
  5. فرخ منظور

    میر لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے ۔ میر تقی میر

    غزل لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے...
  6. فرخ منظور

    میر گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے ۔ میر تقی میر

    غزل گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں...
  7. فرخ منظور

    میر مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی ۔ میر تقی میر (اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی)

    غزل مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی اب تو خراب ہو کر خرابات بھی گئی...
  8. فرخ منظور

    میر طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی ۔ میر تقی میر

    غزل طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی نمائش داغِ سودا کی ھے سر سے بہار اب ھے جنوں کے ابتدا کی نہ ہو گُلشن ہمارا کیونکہ بلبل ہمیں گلزار میں مدت سنا کی مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا نہیں تقصیر اس ناآشنا کی گئے جل حرِّ عشقی سے جگر دل رہی تھی جان سو برسوں جلا کی انہی نے...
  9. فرخ منظور

    میر ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے ۔ میر تقی میر

    غزل ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے جی‌ میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے سودائی و رسوا و شکستہ دل و خستہ اب لوگ ہمیں عشق میں کیا کیا نہ کہیں گے دیکھے سے کہے کوئی نہیں جرم کسو کا کہتے ہیں بجا لوگ بھی بیجا نہ کہیں گے ہوں دربدر و خاک بسر، چاک گریبان اسطور سے کیونکر مجھے رسوا نہ کہیں گے...
  10. فرخ منظور

    میر کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق ۔ میر تقی میر

    کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق شیخ کیا جانے تُو کہ کیا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق عشق معشوق، عشق عاشق ہے یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق عشق ہے طرز و طور، عشق کے تئیں کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق کون مقصد...
  11. کاشفی

    میر کون کہتا ہے مُنہ کو کھولو تم - میر محمدتقی میر

    غزل (میر محمدتقی میر) کون کہتا ہے مُنہ کو کھولو تم کاش کے پردے ہی میں بولو تم حکم آبِ رواں رکھے ہے حُسن بہتے دریا میں ہاتھ دھو لو تم جب میسّر ہو بوسہ اُس لب کا چُپ کے ہی ہو رہو نہ بولو تم رات گذری ہے سب تڑپتے میر آنکھ لگ جائے گر تو سو لو تم
  12. فرخ منظور

    مہدی حسن پتہ پتہ بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے ۔ مہدی حسن

    میر تقی میر کی ایک غزل استاد مہدی حسن کی آواز میں ۔ سب سے پہلی اور اوریجنل ریکارڈنگ
  13. محمد وارث

    میر غزل - عشق میں بے خوف و خطر چاہئے - میر تقی میر

    عشق میں بے خوف و خطر چاہئے جان کے دینے کو جگر چاہئے قابلِ آغوش ستم دیدگاں اشک سا پاکیزہ گہر چاہئے شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس داغ بہ دل، دست بہ سر چاہئے سینکڑوں مرتے ہیں سدا، پھر بھی یاں واقعہ اک شام و سحر چاہئے (1) حال یہ پہنچا ہے کہ...
  14. پ

    میر غزل-ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی-میر تقی میر

    غزل ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی کیونکر کہیئے کہ اثر گریہء مجنوں کو نہ تھا گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی یہ بگولہ تو نہیں دشتِ محبت میں سے جمع ہو خاک اڑی کتنی پریشانوں کی خانقہ کا تو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب یہی اک رہ گئی ہے...
  15. فرخ منظور

    میر تجھ کنے بیٹھے گھُٹا جاتا ہے جی ۔ میر تقی میر

    غزل تجھ کنے بیٹھے گھُٹا جاتا ہے جی کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی یوں تو مردے سے پڑے رہتے ہیں ہم پر وہ آتے ہیں تو آ جاتا ہے جی ہائے اُس کے شربتی لب سے جُدا کچھ بتاشا سا گھُلا جاتا ہے جی اب کے اس کی راہ میں جو ہو سو ہو یاد بھی آتا ہے ، پا جاتا ہے جی کیا کہیں تم سے کہ اُس شعلے بغیر جی ہمارا...
  16. فرخ منظور

    میر وہ رابطہ نہیں ، وہ محبت نہیں رہی ۔ میر تقی میر

    غزل وہ رابطہ نہیں ، وہ محبت نہیں رہی اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی دیکھا تو مثلِ اشک نظر سے گرا دیا اب میری ، اُس کی آنکھ میں عزّت نہیں رہی رُندھنے سے جی کے کس کو رہا ہے دماغِ حرف دم لینے کی بھی ہم کو تو فرصت نہیں رہی تھی تاب جی میر جب تئیں رنج و تعب کھنچے وہ جسم اب نہیں ہے ، وہ قدرت...
  17. فرخ منظور

    میر بود نقش و نگار سا ہے کچھ ۔ میر تقی میر

    غزل بود نقش و نگار سا ہے کچھ صورت اِک اعتبار سا ہے کچھ یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ منہ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ کہنے کو اختیار سا ہے کچھ منتظر اس کی گردِ راہ کے تھے آنکھوں میں سو غبار سا ہے کچھ ضعفِ پیری میں زندگانی بھی دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ کیا ہے ، دیکھو جو...
  18. فرخ منظور

    میر ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا ۔ میر تقی میر

    ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا نکلے ہے جی ہی اُس کے لئے کائنات کا بکھرے ہے زلف اس رخِ عالم فروز پر ورنہ بناؤ ہووے نہ دن اور رات کا در پردہ وہ ہی معنی مقوم نہ ہوں اگر صورت نہ پکڑے کام فلک کی ثبات کا ہیں مستحیل خاک سے اجزائے نو خطاں کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا مستہلک اس کے عشق کے...
  19. فرخ منظور

    میر بے دل ہوئے ، بے دیں ہوئے ، بے وقر ہم ات گت ہوئے ۔ میر تقی میر

    غزل بے دل ہوئے ، بے دیں ہوئے ، بے وقر ہم ات گت ہوئے بے کس ہوئے ، بے بس ہوئے ، بے کل ہوئے ، بے گت ہوئے ہم عشق میں کیا کیا ہوئے ، اب آخر آخر ہو چکے بے مت ہوئے ، بے ست ہوئے ، بے خود ہوئے ، میّت ہوئے الفت جو کی ، کہتا ہے جی ، حالت نہیں ، عزّت نہیں ہم بابتِ ذلّت ہوئے ، شائستۂ کُلفت ہوئے گر کوہِ...
  20. فرخ منظور

    میر حال نہیں ہے دل میں مطلق ، شور و فغاں رسوائی ہے ۔ میر

    غزل حال نہیں ہے دل میں مطلق ، شور و فغاں رسوائی ہے یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے آنکھیں مَل کر کھولیں اُن نے عالم میں آشوب اٹھا بال کھُلے دکھلائی دیا ، سو ہر کوئی سودائی ہے ڈول بیاں کیا کوئی کرے اس وعدہ خلاف کی دیہی کا ڈھال کے سانچے میں صانع نے وہ ترکیب بنائی ہے نسبت کیا اُن...
Top