میر بود نقش و نگار سا ہے کچھ ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

بود نقش و نگار سا ہے کچھ
صورت اِک اعتبار سا ہے کچھ

یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر
دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

منہ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ
کہنے کو اختیار سا ہے کچھ

منتظر اس کی گردِ راہ کے تھے
آنکھوں میں سو غبار سا ہے کچھ

ضعفِ پیری میں زندگانی بھی
دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ

کیا ہے ، دیکھو جو ہو ادھر ہر دم
اور چتون میں پیار سا ہے کچھ

اُس کی برہم زنیِ مژگاں سے
دل میں اب خار خار سا ہے کچھ

جیسے عنقا کہاں ہیں ہم اے میر
شہروں میں اشتہار سا ہے کچھ

(میر تقی میر)
 

شاہ حسین

محفلین
ضعفِ پیری میں زندگانی بھی
دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ

اُس کی برہم زنیِ مژگاں سے
دل میں اب خار خار سا ہے کچھ

بہت خوب جناب سخنور صاحب ۔ لاجواب ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر
دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

منہ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ
کہنے کو اختیار سا ہے کچھ


واہ واہ واہ، لاجواب!

بہت شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ضعفِ پیری میں زندگانی بھی
دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ

اُس کی برہم زنیِ مژگاں سے
دل میں اب خار خار سا ہے کچھ

بہت خوب جناب سخنور صاحب ۔ لاجواب ۔

یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر
دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

منہ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ
کہنے کو اختیار سا ہے کچھ


واہ واہ واہ، لاجواب!

بہت شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے!

پسند کرنے کے لئے بہت شکریہ شاہ صاحب، وارث صاحب، فاتح صاحب، اعجاز صاحب
 
Top