فرخ منظور

لائبریرین
غزل

طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی

نمائش داغِ سودا کی ھے سر سے
بہار اب ھے جنوں کے ابتدا کی

نہ ہو گُلشن ہمارا کیونکہ بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی

مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی

گئے جل حرِّ عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی

انہی نے پردے میں کی شوخ چشمی
بہت ہم نے تو آنکھوں کی حیا کی

ہوا طالع جہاں خورشید دن ہے
تردد کیا ہے ہستی میں خدا کی

پیام اس گل کو پہونچا پھر نہ آئے
نہ خوش آئی میاں گیری* صبا کی

"جفائیں سہیے گیا" کہتے تھے اکثر
ہماری عمر نے پھر گر وفا کی

جواں ہونے کی اس کی آرزو تھی
سو اب باری ہمیں سے یہ جفا کی

(قطعہ)
گیا تھا رات دروازے پہ اس کے
فقیرانہ دعا کر جو صدا کی

لگا کہنے کہ یہ تو ہمنشیناں
صدا ہی دل خراشی سے گدا کی

رہا تھا دیکھ جو پہلے نگہ کر
ہمارے میر ، دل میں ان نے جا کی

ملا اب تو نہ وہ ملنا تھا اس کا
نہ ہم سے دیر آنکھ اس کی ملا کی

(میر تقی میر)

* میاں گیری - میان گیری
 

ظفری

لائبریرین
مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی

بہت خوب فرخ بھائی ۔۔۔۔ بہت اعلی شئیرنگ ہے ۔
 
Top