میر غزل - عشق میں بے خوف و خطر چاہئے - میر تقی میر

محمد وارث

لائبریرین
عشق میں بے خوف و خطر چاہئے
جان کے دینے کو جگر چاہئے

قابلِ آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہئے

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے

عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل، دست بہ سر چاہئے

سینکڑوں مرتے ہیں سدا، پھر بھی یاں
واقعہ اک شام و سحر چاہئے (1)

حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک، ایک پہر چاہئے

کم ہیں شناسائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہئے

جیسے جرس، پارہ گلو کیا کروں
نالہ و فغاں میں اثر چاہئے (2)

خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بارِ دگر چاہئے

(میر تقی میر)

-------------
(1)۔ 'نقوش' میر تقی میر نمبر (نسخۂ لاہور)، اکتوبر 1980ء، جہاں سے یہ غزل لی ہے، اس میں یہ مصرع اس طرح سے درج ہے

"واقعۂ ایک شام و سحر چاہئے"

اس سے وزن خراب ہو جاتا ہے، میں نے درست کر دیا ہے یعنی 'واقعہ اک شام و سحر چاہئے'۔

(2)۔ اس مصرعے کا وزن بھی ٹھیک نہیں ہے لیکن میں اسے ٹھیک نہیں کر سکتا کیونکہ ایک رکن کم ہے اور نہ جانے شاعر نے 'میں اور اثر' کے درمیان کیا لکھا ہو۔ اگر کوئی دوست کلیات میر دیکھ سکیں تو عین نوازش ہوگی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ حضور! آپ اور اس مندر میں۔ ;) کیا خوبصورت غزل شئیر کی ہے۔ کوشش کرتا ہوں اس غزل کو ڈھونڈنے کی لیکن ہائے اتنے بڑے کلیات میں سے ایک غزل تلاش کرنا گویا سمندر کی تہ میں گرا ہوا موتی تلاش کرنا ہے۔ بہرحال کوشش کرتا ہوں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ امید اور فرخ صاحب۔

قبلہ فرخ صاحب، اس مندر کا تو خیر میں پجاری ہوں لیکن ایک مندر آپ کو ایسا بھی یاد ہوگا جسکی بنیادوں میں اس خاکسار کا خون پسینہ شامل ہے اور جہاں اب بھی آپ ہماری یاد میں ناقوس بجاتے ہیں ;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ امید اور فرخ صاحب۔

قبلہ فرخ صاحب، اس مندر کا تو خیر میں پجاری ہوں لیکن ایک مندر آپ کو ایسا بھی یاد ہوگا جسکی بنیادوں میں اس خاکسار کا خون پسینہ شامل ہے اور جہاں اب بھی آپ ہماری یاد میں ناقوس بجاتے ہیں ;)

حضور آپ کی یاد میں تو ہم جہاں بھی جاتے ہیں ناقوس بجاتے چلے جاتے ہیں۔ مگر دیوتا کو رحم نہیں آتا اور ہمیں ایک عرصے سے لذتِ بت پرستی سے دور رکھا ہوا ہے۔ :)
 
Top