آنکھ اُٹھی محبت نے انگڑائی لی دل کا سودا ھوا چاندنی رات میں اُن کی نظروں نے کچھ ایسا جادو کیا لُٹ گئے ہم تو پہلی ملاقات میں ساتھ اپنا وفا میں نہ...
عالم تری نگہ سے ہے سرشار دیکھنا میری طرف بھی ٹک تو بھلا یار دیکھنا ناداں سے اک عمر رہا مجھ کو ربط عشق دانا سے اب پڑا ہے سروکار دیکھنا گردش سے...
مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا ٹک...
مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا اِک مُغ بچہ اتار کے عمّامہ لے گیا داغِ فراق و حسرتِ وصل، آرزوئے شوق میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا پہنچا...
شورشِ کائنات نے مارا موت بن کر حیات نے مارا پرتوِ حسنِ ذات نے مارا مجھ کو میری صفات نے مارا ستمِ یار کی دہائی ہے نگہِ التفات نے مارا میں تھا...
خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی دھجیاں خود بخود اڑتی ہیں گریبانوں کی سخت دشوار حفاظت تھی گریبانوں کی آبرو موت نے رکھ لی ترے دیوانوں کی رحم...
کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز...
جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا حقّا الہٰی کیا کیا،...
پھر محّرک ستم شعاری ہے پھر انہیں جستجو ہماری ہے پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے پھر وہی جوش و نالہ و فریاد پھر وہی...
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں جب یوں نگاہبانئ مرغِ سحر کریں محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں...
تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا جس سے ہے...
مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی...
کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش لے ہاتھ میں قفس ٹک، صیّاد چل چمن تک مدّت سے ہے ہمیں بھی سیرِ بہار...
اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم...
اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا آوے...
ہم نے پوچھا آپ کا آنا ہوا یاں کس روش ہنس کے فرمایا لے آئی آپ کے دل کی کشش دل جونہی تڑپا وہیں دلدار آ پہونچا شتاب اپنے دل کی اس قدر تاثیر رکھتی ہے...
انتخابِ کلام الیگزنڈر ہیڈرلی آزاد زہے وحدت وہی دیر و حرم میں جلوہ آرا ہے ازل سے محو ہوں جس کے جمالِ حیرت افزا کا دوئی کو ترک کر آزاد بس...
کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہے شورِ محشر اس کو بہرِ خواب اِک افسانہ ہے پھر سرِ شوریدہ پُر جوشِ جنوں دیوانہ ہے پھر دلِ تفسیدہ پر برقِ بلا...
کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس...
شعر دیواں کے میرے کر کر یاد مجنوں کہنے لگا کہ "ہاں استاد!" خود کو عشقِ بتاں میں بھول نہ جا متوکّل ہو، کر خدا کو یاد سب طرف کرتے ہیں نکویاں کی...
ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں