کلاسیکی اردو شاعری

  1. معین الدین

    آنکھ اٹھی محبت نے انگڑائی لی

    آنکھ اُٹھی محبت نے انگڑائی لی دل کا سودا ھوا چاندنی رات میں اُن کی نظروں نے کچھ ایسا جادو کیا لُٹ گئے ہم تو پہلی ملاقات میں ساتھ اپنا وفا میں نہ چھوٹے کبھی پیار کی ڈور بندھ کر نہ ٹوٹے کبھی چھوٹ جائے زمانہ کوئی غم نہیں ہاتھ تیرا رہے بس میرے ہاتھ میں رُت ہے برسات کی دیکھو ضد مت کرو رات اندھیری ہے...
  2. غدیر زھرا

    عالم تری نگہ سے ہے سرشار دیکھنا (ماہ لقا چندا)

    عالم تری نگہ سے ہے سرشار دیکھنا میری طرف بھی ٹک تو بھلا یار دیکھنا ناداں سے اک عمر رہا مجھ کو ربط عشق دانا سے اب پڑا ہے سروکار دیکھنا گردش سے تیری چشم کے مدت سے ہوں خراب تس پر کرے ہے مجھ سے یہ اقرار دیکھنا ناصح عبث کرے ہے منع مجھ کو عشق سے آ جائے وہ نظر تو پھر انکار دیکھنا چندا کو تم سے چشم...
  3. فرخ منظور

    سودا مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا ۔ مرزا رفیع سودا

    مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا ٹک دیکھ صنم خانہء عشق آن کے اے شیخ جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا اس گلشنِ ہستی‌ میں عجب دید ہے، لیکن جب چشم کھلے گُل کی تو موسم ہوں خزاں کا دکھلائیے...
  4. فرخ منظور

    میر مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا ۔ میر تقی میر

    مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا اِک مُغ بچہ اتار کے عمّامہ لے گیا داغِ فراق و حسرتِ وصل، آرزوئے شوق میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا پہنچا نہ پہنچا، آہ گیا، سو گیا غریب وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا اس راہ زن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ اِک مرتبہ جو میر کا جی جامہ لے گیا (میر تقی میر)
  5. فرخ منظور

    جگر شورشِ کائنات نے مارا ۔ جگر مراد آبادی

    شورشِ کائنات نے مارا موت بن کر حیات نے مارا پرتوِ حسنِ ذات نے مارا مجھ کو میری صفات نے مارا ستمِ یار کی دہائی ہے نگہِ التفات نے مارا میں تھا رازِ حیات اور مجھے میرے رازِ حیات نے مارا ستمِ زیست آفریں کی قسم خطرۂ التفات نے مارا موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی جس کو مارا حیات نے مارا جو پڑی...
  6. فرخ منظور

    جگر خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی ۔ جگر مراد آبادی

    خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی دھجیاں خود بخود اڑتی ہیں گریبانوں کی سخت دشوار حفاظت تھی گریبانوں کی آبرو موت نے رکھ لی ترے دیوانوں کی رحم کر اب تو جنوں! جان پہ دیوانوں کی دھجیاں پاؤں تک آپہنچیں گریبانوں کی گرد بھی مل نہیں سکتی ترے دیوانوں کی خاک چھانا کرے اب قیس بیابانوں کی ہم نے...
  7. فرخ منظور

    آتش کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا ۔ خواجہ حیدر علی آتش

    کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز اپنا خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بُت کورِ بد بیں ہو ترا، گُنگ ہو...
  8. فرخ منظور

    جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر ۔ امیر خسرو

    جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ پر ہمارا پیار ہے تجھ دوستی بسیار ہے ، اِک شب ملو تم آئے کر جاناں طلب تیری کروں ، دیگر طلب کس کی کروں...
  9. فرخ منظور

    شیفتہ پھر محّرک ستم شعاری ہے ۔ شیفتہ

    پھر محّرک ستم شعاری ہے پھر انہیں جستجو ہماری ہے پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے پھر وہی جوش و نالہ و فریاد پھر وہی شورِ آہ و زاری ہے پھر خیالِ نگاہِ کافر ہے پھر تمنائے زخم کاری ہے پھر وہاں طرزِ دلنوازی ہے پھر یہاں رسمِ جاں نثاری ہے پھر وہی بے قراریِ تسکیں پھر...
  10. فرخ منظور

    شیفتہ شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں ۔ نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

    شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں جب یوں نگاہبانئ مرغِ سحر کریں محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟ دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں کچھ اب کے...
  11. فرخ منظور

    شیفتہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا ۔ نواب مصطفیٰ خان شیفتہ

    تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا وہ غیر کے...
  12. فرخ منظور

    میر مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش۔ میر تقی میر

    مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں کیا کریے یاں نہیں ہے...
  13. فرخ منظور

    میر کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش ۔ میر تقی میر

    کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش لے ہاتھ میں قفس ٹک، صیّاد چل چمن تک مدّت سے ہے ہمیں بھی سیرِ بہار خواہش نَے کچھ گنہ ہے دل کا نےَ جرمِ چشم اس میں رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش حالآنکہ عمر ساری مایوس گزری تس پر کیا کیا رکھیں ہیں اس کے...
  14. فرخ منظور

    شاد عظیم آبادی ‫اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم ۔ شاد عظیم آبادی

    ‫اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم تعلقات کا الجھاؤ ہر طرح ظاہر گرہ کشائیِ تقدیرِ نارسا معلوم سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستا معلوم دعا کروں نہ کروں...
  15. فرخ منظور

    میر اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا ۔ میر تقی میر

    اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا میرے حضور شمع...
  16. فرخ منظور

    نظیر ہم نے پوچھا آپ کا آنا ہوا یاں کس روش ۔ نظیر اکبر آبادی

    ہم نے پوچھا آپ کا آنا ہوا یاں کس روش ہنس کے فرمایا لے آئی آپ کے دل کی کشش دل جونہی تڑپا وہیں دلدار آ پہونچا شتاب اپنے دل کی اس قدر تاثیر رکھتی ہے طپش سیر کو آیا تھا جس گلشن میں کل وہ نازنیں تھی عجب نازاں بخود اس باٹ* کی اِک اِک روش ڈالتی ہے زلفِ پیچاں گردنِ دل میں کمند اور رگِ جاں سے کرے ہے...
  17. فرخ منظور

    انتخابَ کلام الیگزنڈر ہیڈرلی آزاد

    انتخابِ کلام الیگزنڈر ہیڈرلی آزاد زہے وحدت وہی دیر و حرم میں جلوہ آرا ہے ازل سے محو ہوں جس کے جمالِ حیرت افزا کا دوئی کو ترک کر آزاد بس معقولِ وحدت رہ اسی پر منحصر ہے فیصلہ دنیا و عقبےٰ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لگے گا لطمۂ موجِ فنا دریائے ہستی میں حباب اکدم کی خاطر تو اگر نکلا تو کیا نکلا کرے...
  18. فرخ منظور

    داغ کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہے ۔ داغ دہلوی

    کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہے شورِ محشر اس کو بہرِ خواب اِک افسانہ ہے پھر سرِ شوریدہ پُر جوشِ جنوں دیوانہ ہے پھر دلِ تفسیدہ پر برقِ بلا پروانہ ہے خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگسِ مستانہ ہے آشنا سے آشنا، بیگانے سے بیگانہ ہے آتے جاتے ہیں نئے ہر روز مرغِ نامہ بر بندہ پرور آپ کا گھر بھی کبوتر...
  19. فرخ منظور

    میر کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں ۔ میر تقی میر

    کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے جیسے اسیرِ تازہ بے تاب ہو قفس میں جاں کاہ ایسے نالے لوہے سے تو نہ ہوویں بے تاب دل کسو کا رکھا ہے کیا...
  20. فرخ منظور

    میر شعر دیواں کے میرے کر کر یاد ۔ میر تقی میر

    شعر دیواں کے میرے کر کر یاد مجنوں کہنے لگا کہ "ہاں استاد!" خود کو عشقِ بتاں میں بھول نہ جا متوکّل ہو، کر خدا کو یاد سب طرف کرتے ہیں نکویاں کی کس سے جا کر کوئی کرے فریاد وحشی اب گرد باد سے ہم ہیں عمر افسوس کیا گئی برباد چار دیواریِ عناصر میر خوب جاگہ ہے، پر ہے بے بنیاد (میر تقی میر)...
Top