کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہےشورِ محشر اس کو بہرِ خواب اِک افسانہ ہے پھر سرِ شوریدہ پُر جوشِ جنوں دیوانہ ہےپھر دلِ تفسیدہ پر برقِ بلا پروانہ ہے خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگسِ مستانہ ہےآشنا سے آشنا، بیگانے سے بیگانہ ہے آتے جاتے ہیں نئے ہر روز مرغِ نامہ بربندہ پرور آپ کا گھر بھی کبوتر خانہ ہے فاتحہ پڑھنے کو آیا تھا مگر وہ شمع رُوآج میری قبر کا جو پھول ہے پروانہ ہے درد سے بھرتے ہیں آنسو ضبط سے پیتے ہیں ہمآنکھ کی ہے آنکھ یہ پیمانے کا پیمانہ ہے پائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے مجھے چال سے خالی کہاں یہ لغزشِ مستانہ ہے کوہ کن کا تھا یہی پیشہ جو کاٹا تھا پہاڑکم مشکل جاں کنی اے ہمتِ مردانہ ہے جب پڑا ہے وقت کوئی، ہو گئے ہیں سب الگدوست بھی اپنا نہیں، بیگانہ تو بیگانہ ہے اس کے در پر جا کے ہوتا ہے گدا کو بھی یہ نازلوگ کہتے ہیں مزاج اس شخص کا شاہانہ ہے مجھ کو لے جا کر کہا ناصح نے ان کے روبروآپ کے سر کی قسم یہ آپ کا دیوانہ ہے اس کو دیوانہ بنا لوں تو کروں جھک کر سلاممیں تو بھولا ہوں مگر دشمن بڑا فرزانہ ہے ہم نے دیکھا ہی نہیں خالی نحوست سے کوئیزاہدوں کو مبارک سبحۂ صد دانہ ہے داغ یہ ہے کوئے قاتل، مان ناداں ضد نہ کراٹھ یہاں سے ادھر، گھر بیٹھ، کچھ دیوانہ ہے (داغ دہلوی)
واہ بہت ہی خوب شیئرنگ سر جی درد سے بھرتے ہیں آنسو ضبط سے پیتے ہیں ہم آنکھ کی ہے آنکھ یہ پیمانے کا پیمانہ ہے
فرخ صاحب! تشکّراور بہت سی انتخابی داد، اِس خوب صورت شیئرنگ پر بہتا لطف دیا آپ کے انتخاب نے بہت خوش رہیں
میرا خیال ہے کہ یہ تین اشعار غالباً کچھ اس طرح ہوں گے ۔ براہِ کرم رہ نمائی کی جاے ۔ ۔۔۔۔۔ کوہ کن کا تھا یہی پیشہ جو کاٹا تھا پہاڑ کام مشکل جاں کنی اے ہمتِ مردانہ ہے ہم نے دیکھا ہی نہیں خالی نحوست سے کوئی زاہدوں کو ہو مبارک سبحۂ صد دانہ ہے داغ یہ ہے کوئے قاتل، مان ناداں ضد نہ کر اٹھ یہاں سے آادھر، گھر بیٹھ، کچھ دیوانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔