میر اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا
قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا

نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا

میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا
رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا

احوال اس شکارِ زبوں کا ہے جائے رحم
جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا

منہ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے
شب ہم کو میرؔ پرتوِ مہتاب لے گیا

(میر تقی میر)
 

شیزان

لائبریرین
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

بہت اعلیٰ انتخاب فرخ صاحب
 

باباجی

محفلین
کیا ہی خوب کلام ہے
واہ


نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
 
Top