کلاسیکی اردو شاعری

  1. فرخ منظور

    شیفتہ یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور ۔ شیفتہ

    یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے؟ اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور جو لطف میں بھی پاس پھٹکنے نہ دے کبھی رکھیو الٰہی! ایسے کے مجھ کو...
  2. فرخ منظور

    شیفتہ اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش ۔ شیفتہ

    اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش طلسمِ ہوش ربا ہےدکانِ بادہ فروش کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش یقین ہے کہ مئے ناب مفت ہاتھ آئے یہ جی میں ہے کہ بنوں میہمانِ بادہ فروش قدح سے دل ہے...
  3. فرخ منظور

    شیفتہ جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا ۔ شیفتہ

    جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا پروانہ بنا میرے جلانے کو وفادار محفل میں کوئی شمع بدل جائے تو اچھا کس چین سے نظارہ ہر دم ہو میسر دل کوچۂ دشمن میں بہل جائے تو اچھا تم غیر کے قابو سے نکل آؤ تو بہتر حسرت یہ مرے دل کی نکل جائے تو اچھا سودا زدہ کہتے ہیں،...
  4. فرخ منظور

    غافل نہ رہیو اُس سے تو اے یار آج کل ۔ جرأت

    غافل نہ رہیو اُس سے تو اے یار آج کل مرتا ہے تیرے عشق کا بیمار آج کل کیا جانیں کیا کرے گا وہ خونخوار آج کل رکھتا بہت ہے ہاتھ میں تلوار آج کل جو ہے سو آہ عشق کا بیمار ہے دلا پھیلا ہے بے طرح سے یہ آزار آج کل اُس دوست کے لئے ترے دشمن ہیں سینکڑوں اے دل! ٹک اک پہر تو خبردار آج کل یوسف کسی...
  5. فرخ منظور

    مصحفی دل نہ دیجے، اس کو اپنا، جس سے یاری کیجیے ۔ مصحفی

    دل نہ دیجے، اس کو اپنا، جس سے یاری کیجیے آپ اتنی تو بھلا، خاطر ہماری کیجیے تم کو کیا چاکِ گریباں سے کسی کے کام ہے جائیے لڑکوں میں واں، دامن سواری کیجیے جی میں آتا ہے، کہ اک دن مار مریے آپ کو کب تلک گلیوں میں یوں، فریاد و زاری کیجیے مارے تلوارں کے، اتّو کر دیا سینہ مرا چاہیے تو، اور بھی...
  6. فرخ منظور

    کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا ۔ جرأت

    کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا خواب میں آنے کی بھی تم نے قسم کھائی کیا اُس کا گھر چھوڑ کے ہم تو نہ کسی در پہ گئے پر سمجھتا ہے اسے وہ بتِ ہرجائی کیا سنتے ہی جس کے ہوئی جان ہوا تن سے مرے اس گلی سے یہ خبر بادِ صبا لائی کیا واہ میں اور نہ آنے کو کہوں گا، توبہ! میں تو حیراں ہوں یہ بات...
  7. فرخ منظور

    مصحفی یارانِ رفتہ آہ بہت دور جا بسے ۔ مصحفی

    یارانِ رفتہ آہ بہت دور جا بسے دل ہم سے رک گیا تھا انہوں کا جدا بسے کوچے میں تیرے ہاتھ ہزاروں بلند ہیں ایسے کہاں سے آ کے یہ اہلِ دعا بسے کرتا ہے کوئی زیبِ تن اپنا وہ رشکِ گُل پھولوں میں جب تلک کہ نہ اس کی قبا بسے بلبل کہے ہے جاؤں ہوں، کیا کام ہے مرا میں کون، اس چمن میں نسیم و صبا بسے جنگل...
  8. فرخ منظور

    سودا جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا ۔ سودا

    جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا کیوں نہ کہتے تھے دلا شیریں لبوں کے منہ نہ لگ ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا شرح اپنی بے قراری کی لکھیں گے ہم اگر نامہ...
  9. فرخ منظور

    مصحفی ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا ۔ مصحفی

    ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا تم چاہتے تو تم سے یہ دشوار کچھ نہ تھا سن کر کے واقعے کو مرے اُس نے یوں کہا کیا سچ ہے یہ؟ وہ اتنا تو بیمار کچھ نہ تھا میری کشش سے آپ عبث مجھ سے رک رہے روٹھا تھا یوں ہی جی سے میں بیزار کچھ نہ تھا ہاں شب صدائے پاسی تو آئی تھی کچھ ولے دیکھا جو اٹھ کے میں، پسِ...
  10. فرخ منظور

    دمبدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں ۔ صبا لکھنوی

    دمبدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں موسمِ گُل میں ہم اِک دھوم مچا دیتے ہیں جنسِ دل آپ گراں سمجھے ہیں اِک بوسے پر دھیان اتنا نہیں کیا لیتے ہیں کیا دیتے ہیں ہم وہ بسمل ہیں کہ ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک دامنِ زخم سے قاتل کو ہوا دیتے ہیں نزع میں ہوں مری بالیں سے نہ اٹھیے للہ آپ کس وقت میں بندے کو دغا...
  11. فرخ منظور

    دکھائے رندوں کو نیرنگیِ شراب گھٹا ۔ صبا لکھنوی

    دکھائے رندوں کو نیرنگیِ شراب گھٹا پئے گزک کرے طاؤس کو کباب گھٹا گہ آئینہ ہوا، گہ دیدۂ پر آب گھٹا کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا نہیں ہے حاجیوں کو مے کشی کی کیفیت گئی حرم کو تو ہو گی بہت خراب گھٹا سفر ہے باغِ جہاں گرزِ...
  12. فرخ منظور

    تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا ۔ نوا

    تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پُر فسوں کا دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا دیوانۂ پری کو کب اُنس، اِنس سے ہو جو اُس کے در پر بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا خوبانِ جور پیشہ گزرے بہت ولیکن تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا...
  13. فرخ منظور

    نقش ہائے گزشتگاں ہیں ہم ۔ وحشت

    نقش ہائے گزشتگاں ہیں ہم محوِ حیرت ہیں اب جہاں ہیں ہم ضعف سے کیا کہیں کہاں ہیں ہم اپنی نظروں سے خود نہاں ہیں ہم صبر و تاب و تواں کے جانے سے ہائے گُم کردہ کارواں ہیں ہم دل کی لے کر خبر بھی دل کی نہ لی پھر کہو گے کہ دل ستاں ہیں ہم آ کے جلدی کرو مسیحائی اب کوئی دم کے میہماں ہیں ہم آئینہ...
  14. فرخ منظور

    نظیر ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے ۔ نظیر اکبر آبادی

    ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے رہے نہ رہے رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے مجھے ہے نزع، وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ کہ اس کے آنے تلک دم رہے رہے نہ رہے بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغِ مزار ہوا کے بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے...
  15. فرخ منظور

    حالی کل مدّعی کو آپ پہ کیا کیا گماں رہے ۔ الطاف حسین حالی

    غزل کل مدّعی کو آپ پہ کیا کیا گماں رہے بات اُس کی کاٹتے رہے اور ہم زباں رہے یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے یا کھینچ لائے دیر سے رندوں کو اہلِ وعظ یا آپ بھی ملازمِ پیرِ مغاں رہے وصلِ مدام سے بھی ہماری بجھی نہ پیاس ڈوبے ہم آبِ خضر میں اور نیم جاں رہے کَل کی...
  16. فرخ منظور

    نظیر پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شوخ نے جس ہنگام کیا ۔ نظیر اکبر آبادی

    پردہ اٹھا کر رخ کو عیاں اس شوخ نے جس ہنگام کیا ہم تو رہے مشغول ادھر یاں عشق نے دل کا کام کیا آگئے جب صیاد کے بس میں سوچ کیے پھر حاصل کیا اب تو اسی کی ٹھہری مرضی جن نے اسیرِ دام کیا چشم نے چھینا پلکوں نے چھیدا، زلف نے باندھا دل کو آہ ابرو نے ایسی تیغ جڑی جو قصہ ہے سب اتمام کیا سخت خجل ہیں...
  17. کاشفی

    داغ یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں - داغ دہلوی

    غزل (داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ) یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں وہ ایک ہی تو شخص ہے ، تم جانتے نہیں بد عہدیوں کو آپ کی کیا جانتے نہیں کل مان جائیں گے اسے ہم جانتے نہیں وعدہ ابھی کیا تھا، ابھی کھائی تھی قسم کہتے ہو پھر کہ ہم تجھے پہچانتے نہیں چھوٹے گی حشر تک نہ یہ مہندی لگی...
  18. کاشفی

    داغ مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں - داغ دہلوی

    غزل (داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ) مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں بھلا کیا اعتبار تونے، ہزار منہ ہیں ہزار باتیں رقیب کا ذکر وصل کی شب، پھر اُس پہ تاکید ہے کہ سنئے تمہیں تو اک داستاں ٹھہری، ہمیں یہ ہیں ناگوار باتیں اُنہیں نہ کیوں عذر درد ِ سر ہو جب اس طرح کا...
  19. فرخ منظور

    حسرت موہانی بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس ۔ حسرت موہانی

    بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس اب ہوں میں اور بے دلی کی ہوس کہ رہے دل نہ بے قراریِ دل عاشقی ہو نہ عاشقی کی ہوس وہ ستمگر بھی ہے عجیب کوئی کیوں ہوئی دل کو پھر اسی کی ہوس پھرتی رہتی ہے آدمی کو لئے خوار دنیا میں آدمی کی ہوس دونوں یکساں ہیں بے خودی میں ہمیں فکرِ غم ہے نہ خمریِ کی ہوس...
  20. کاشفی

    امیر مینائی دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ - امیر مینائی

    غزل (امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ) دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ غم سے بے اختیار سا ہے کچھ رخت ہستی بدن پہ ٹھیک نہیں جامہء مستعار سا ہے کچھ چشم نرگس کہاں وہ چشم کہاں نشہ کیسا خمار سا ہے کچھ نخل اُمید میں نہ پھول نہ پھل شجرِ بے بہار سا ہے کچھ ساقیا ہجر میں یہ ابر نہیں آسمان پر...
Top