سودا جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا ۔ سودا

فرخ منظور

لائبریرین
جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا
خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا

کیوں نہ کہتے تھے دلا شیریں لبوں کے منہ نہ لگ
ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا

چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال
یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا

شرح اپنی بے قراری کی لکھیں گے ہم اگر
نامہ بر اپنا پرِ پروازِ بسمل ہوئے گا

یاں وفا و جور کا ہم تم نہ سمجھیں گے حساب
دفترِ محشر میں سب باقی و فاضل ہوئے گا

صبر ہو کوہِ گراں جس کا تو وہ عزمِ سفر
کر کے تجھ در سے سبک پہلی ہی منزل ہوئے گا

سہج میں دنیا تو ہم چھوڑیں گے لیکن زاہدا
چھوڑنا تیری طرح داڑھی کا مشکل ہوئے گا

کَر ہے گوشِ فہم عالم ورنہ کہتی ہے بہار
جو گُل آیا اس چمن میں ایک دل گُل ہوئے گا

زیادہ اس شب سے نہیں بے قدر حیرانی مری
آئنہ تو صبح دم تیرے مقابل ہوئے گا

تجھ پہ گر خونِ دو عالم کا ہو دعویٰ بے گواہ
بول اٹھے قاضی "نہیں" دعویٰ یہ باطل ہوئے گا

قطعہ
شیخ کو لائے تھے سودا اس لیے ہم یار پاس
طبع کو اس کے تفنّن اس سے حاصل ہوئے گا

سو وہ اب ہم چشم ٹھہرا ہے ہمارا یا نصیب!
تھا لکھا اپنا کہ ہم میں وہ بھی شامل ہوئے گا

ہم تو وہ سمجھے تھے دل میں پر خبر اس کی نہ تھی
یہ لگا لوہو شہیدوں بیچ داخل ہوئے گا

(مرزا رفیع سودا)
 
Top