میر

  1. فرخ منظور

    میر مثالِ سایہ محبت میں جال اپنا ہوں ۔ میر تقی میرؔ

    مثالِ سایہ محبت میں جال اپنا ہوں تمھارے ساتھ گرفتارِ حال اپنا ہوں سرشک ِسرخ کو جاتا ہوں جو پیے ہر دم لہو کا پیاسا علی الاتصال اپنا ہوں اگرچہ نشہ ہوں سب میں خمِ جہاں میں لیک برنگ مے عرقِ انفعال اپنا ہوں مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک میں نقشِ پا کی طرح پائمال اپنا ہوں ہوئی ہے زندگی دشوار...
  2. فرخ منظور

    میر اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گذر ۔ میر تقی میر

    اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گذر اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر دھڑکا تھا دل طپیدنِ شب سے سو آج صبح دیکھا وہی کہ آنسوؤں میں چو پڑا جگر ہم تو اسیرِ کنج قفس ہوکے مرچلے اے اشتیاقِ سیرِ چمن تیری کیا خبر مت عیب کر جو ڈھونڈوں میں اس کو کہ مدعی یہ جی بھی یوں ہی جائے گا رہتا ہے تو کدھر...
  3. طالب سحر

    اردو شاعری کی ویب سائٹس -- ایک سے زیادہ رسم الخط میں

    ایسی کئی ویب سائٹس ہیں جن میں اردو شاعری ایک سے زیادہ رسم الخط -- "اردو"، دیوناگری، رومن، وغیرہ -- میں پیش کی جاتی ہے- پچھلے دنوں اپنے کچھ احباب کے لئے ان ویب سائٹس کی (نامکمل) فہرست بنائی تھی، جو اضافے کے درخواست کے ساتھ محفل کی نذر ہے- ریختہ https://rekhta.org/ Best Ghazals and Nazms...
  4. فرخ منظور

    میر عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا ۔ میر تقی میرؔ

    عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا میں جو گدایانہ چلّایا در پر اس کے نصفِ شب گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا آگے عالم عین تھا اس کا اب عینِ عالم ہے وہ اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا مطلب کا سررشتہ گم ہے کوشش کی کوتاہی نہیں...
  5. فرخ منظور

    میر جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش و ہوش نہ کھولے ٹک ۔ میر تقی میرؔ

    جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش و ہوش نہ کھولے ٹک چپکے چپکے کسو کو چاہا پوچھا بھی تو نہ بولے ٹک اب جو چھاتی جلی فی الواقع لطف نہیں ہے شکایت کا صبر کرو کیا ہوتا ہے یوں پھوڑے دل کے پھپھولے ٹک نالہ کشی میں مرغِ چمن بکتا ہے پر ہم تب جانیں نعرہ زناں جب صبح سے آ کے ساتھ ہمارے بولے ٹک اس کی قامت موزوں...
  6. سید زبیر

    میر رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری

    رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری شب اُس کے کُوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر کہ ایک دوست ہے واں خوابِ پاسباں میری اُسی...
  7. طارق شاہ

    میر مِیر تقی مِیرؔ ::::: رنگِ سُخن تو دیکھ ، کہ حیرت سے باغ میں! ::::: Mir Taqi Mir

    غزلِ میر تقی میؔر چمکی ہے جب سے برق ِسَحر گُلستاں کی اور جی لگ رہا ہے خار و خسِ آشیاں کی اور وہ کیا یہ دل لگی ہے فنا میں ، کہ رفتگاں مُنہ کرکے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور رنگِ سُخن تو دیکھ ، کہ حیرت سے باغ میں! رہجاتے ہیں گےدیکھ کے گُل اُس دَہاں کی اور آنکھیں سی کُھل ہی جائیں گی...
  8. طارق شاہ

    میر مِیر تقی مِیرؔ ::::: آئی ہے اُس کے کُوچے سے ہوکر صبا کُچھ اور::::: Mir Taqi Mir

    غزلِ میر تقی میؔر آئی ہے اُس کے کُوچے سے ہوکر صبا کُچھ اور کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہَوا کُچھ اور تدبِیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے بیماری اور کُچھ ہے، کریں ہیں دوا کُچھ اور مستان ِعِشق و اہلِ خرابات میں ہے فرق مے خوارگی کُچھ اور ہے یہ ، نشّہ تھا کُچھ اور کیا نسبت اُس کی قامتِ...
  9. طارق شاہ

    بشیر بدر ::::: تھا مِیر جن کو شعر کا آزار مر گئے ::::: Dr. Bashir Badr

    غزل تھا مِیر جن کو شعر کا آزار مر گئے غالب تمھارے سارے طرفدار مر گئے جذبوں کی وہ صداقتیں مرحُوم ہو گئیں احساس کے نئے نئے اِظہار مر گئے تشبیہہ و استعارہ و رمز و کنایہ کیا پَیکر تراش شعر کے فنکار مر گئے ساقی! تِری شراب بڑا کام کر گئی کچھ راستے میں، کچھ پَسِ دِیوار مر گئے تقدیسِ دِل کی عصیاں...
  10. فرخ منظور

    میر آنکھیں سفید دل بھی جلا انتظار میں ۔ میر تقی میر

    آنکھیں سفید دل بھی جلا انتظار میں کیا کچھ نہ ہم بھی دیکھ چکے ہجرِ یار میں دنیا میں ایک دو نہیں کرتا کوئی مقام جو ہے رواروی ہی میں ہے اس دیار میں دیکھی تھیں ایک روز تری مست انکھڑیاں انگڑائیاں ہی لیتے ہیں اب تک خمار میں اخگر تھا دل نہ تھا مرا جس سے تہِ زمیں لگ لگ اٹھی ہے آگ کفن کو مزار میں...
  11. فرخ منظور

    میر میں رنجِ عشق کھینچے بہت ناتواں ہوا ۔ میر تقی میر

    میں رنجِ عشق کھینچے بہت ناتواں ہوا مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا بستر سے اپنے اٹھ نہ سکا شب ہزار حیف بیمارِ عشق چار ہی دن میں گراں ہوا شاید کہ دل تڑپنے سے زخمِ دروں پھٹا خوں ناب میری آنکھوں سے منھ پر رواں ہوا غیر از خدا کی ذات مرے گھر میں کچھ نہیں یعنی کہ اب مکان مرا لامکاں ہوا مستوں میں...
  12. فرخ منظور

    میر کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم ۔ میر تقی میر

    کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم بہلانے کو دل باغ میں آئے تھے سو بلبل چلانے لگی ایسے کہ بیزار ہوئے ہم جلتے ہیں کھڑے دھوپ میں جب جاتے ہیں اودھر عاشق نہ ہوئے اس کے گنہگار ہوئے ہم اک عمر دعا کرتے رہے یار کو دن رات دشنام کے اب اس کے سزاوار ہوئے ہم ہم دام بہت...
  13. کاشفی

    مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو - وسعت اللہ خان

    مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو (وسعت اللہ خان) صرف میں ہی کیا دسویں درجے کے کسی بھی ہم جماعت کو اچھے خاصے اشعار ازبر ہوتے ہوئے بھی میر صاحب کا یہ شعر اٹک جاتا تھا۔ مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا اردو کے استاد صید رسول ضیا نے پھر یوں سمجھایا۔ ’’ مگس شہد کی مکھی کو کہتے...
  14. فرخ منظور

    میر پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا ۔ میر تقی میرؔ

    پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا کاٹے ہیں خاک اڑا کر جوں گردباد برسوں گلیوں میں ہم ہوئے ہیں اس بن خراب کیا کیا کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش اس کے خیال میں ہم دیکھے ہیں خواب کیا کیا انواعِ جرم میرے پھر بے شمار و بے حد روزِ حساب لیں گے...
  15. فرخ منظور

    میر نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا ۔ میر تقی میر

    غزل نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا شاعری تو شعار ہے اپنا بے خودی لے گئی کہاں ہم کو دیر سے انتظار ہے اپنا روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات اب یہی روزگار ہے اپنا دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور اس میں کیا اختیار ہے اپنا کچھ نہیں ہم مثالِ عنقا لیک شہر شہر اشتہار ہے اپنا جس کو تم آسمان کہتے ہو سو دلوں...
  16. طارق شاہ

    میر میر تقی میر ::::: مُدّت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں ::::: Mir Taqi Mir

    غزلِ میر تقی میر مُدّت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں نامے کا اُس کی مہر سے اب نام بھی نہیں ایّامِ ہجْر کریے بسر کِس اُمید پر مِلنا اُنھوں کا صُبح نہیں، شام بھی نہیں پَروا اُسے ہو کاہےکو، ناکام گر مَرُوں اُس کام جاں کو مجھ سے تو کُچھ کام بھی نہیں رووَیں اِس اِضطراب دِلی کو کہاں تلک دِن...
  17. فرخ منظور

    میر ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ ۔ میر تقی میر

    ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ بود آدم نمود شبنم ہے ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا دل سے اپنے ہمیں گلہ ہے یہ شور سے اپنے حشر ہے پردہ یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ بس ہوا ناز ہو چکا اغماض ہر گھڑی ہم...
  18. فرخ منظور

    میر تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے ۔ میر تقی میر

    تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے بھوکوں مرتے ہیں کچھ اب یار بھی کھا بیٹھیں گے اب کے بگڑے گی اگر ان سے تو اس شہر سے جا کسو ویرانے میں تکیہ ہی بنا بیٹھیں گے معرکہ گرم تو ٹک ہونے دو خونریزی کا پہلے تلوار کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے ہو گا ایسا بھی کوئی روز کہ مجلس سے کبھو ہم تو ایک آدھ...
  19. طارق شاہ

    میر میر تقی میر ::::: ہے تہِ دِل بُتوں کا کیا معلوم ::::: Mir Taqi Meer

    غزلِ میر تقی میر ہے تہِ دِل بُتوں کا کیا معلوُم نِکلے پردے سے کیا خُدا معلوم یہی جانا، کہ کُچھ نہ جانا ہائے سو بھی، اِک عمر میں ہُوا معلوم عِلم سب کو ہے یہ کہ، سب تو ہے پھر ہے الله کیسا نامعلوم گرچہ توُ ہی ہے سب جگہ، لیکن ہم کو تیری نہیں ہے جا معلوم عِشق، جانا تھا مار رکھّے گا...
  20. طارق شاہ

    میر میر تقی میر ::::: وبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو ::::: Mir Taqi Meer

    میر تقی میر خُوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو معشُوق کا ہے حُسن، اگر دِل نواز ہو سجدہ کا کیا مُضائقہ محراب تیغ میں پر یہ تو ہو، کہ نعش پہ میری نماز ہو اِک دَم تو ہم میں، تیغ کو توُ بے دریغ کھینچ تا، عشق میں ہوس میں تنک اِمتیاز ہو نزدِیک سوزِ سِینہ کے رکھ اپنے قلب کو وہ دِل ہی...
Top