میر جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش و ہوش نہ کھولے ٹک ۔ میر تقی میرؔ

فرخ منظور

لائبریرین
جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش و ہوش نہ کھولے ٹک
چپکے چپکے کسو کو چاہا پوچھا بھی تو نہ بولے ٹک

اب جو چھاتی جلی فی الواقع لطف نہیں ہے شکایت کا
صبر کرو کیا ہوتا ہے یوں پھوڑے دل کے پھپھولے ٹک

نالہ کشی میں مرغِ چمن بکتا ہے پر ہم تب جانیں
نعرہ زناں جب صبح سے آ کے ساتھ ہمارے بولے ٹک

اس کی قامت موزوں سے کیا کوئی سرو برابر ہو
ناموزوں ہی نکلے گا سنجیدہ کوئی جو بولے ٹک

آنکھیں جو کھولیں سوتے سے تو حال ہی کہتے مجھ کو کہا
ساری رات کہانی کہی ہے تُو بھی اٹھ کر سولے ٹک

مشکل ہے دلداریِ عاشق وہ برسوں بیتاب رہے
بے طاقت اس دل کو میرے ہاتھ میں اپنے تولے ٹک

آنکھیں کھولیں حال کے کہتے دیر ہوئی ہے بس یعنی
ساری رات کہانی کہی ہے میرؔ اب چل کر سولے ٹک

ایسے دردِ دل کرنے کو میرؔ کہاں سے جگر آوے
گرم سخن لوگوں میں ہو کوئی بات کرے تو رولے ٹک

(میر تقی میرؔ)
 
آخری تدوین:
Top