طارق شاہ
محفلین
غزلِ
میر تقی میر
ہے تہِ دِل بُتوں کا کیا معلوُم
نِکلے پردے سے کیا خُدا معلوم
یہی جانا، کہ کُچھ نہ جانا ہائے
سو بھی، اِک عمر میں ہُوا معلوم
عِلم سب کو ہے یہ کہ، سب تو ہے
پھر ہے الله کیسا نامعلوم
گرچہ توُ ہی ہے سب جگہ، لیکن
ہم کو تیری نہیں ہے جا معلوم
عِشق، جانا تھا مار رکھّے گا
اِبتدا میں تھی اِنتہا معلوم
اِن سیہ چشم دِلبروں سے ہمیں
تھی وفا چشم ، سو وفا معلوم
طرز کِینے کی کوئی چُھپتی ہے
مُدّعی کا ہے مُدّعا معلوم
عِشق ہے، اے طبیب! جی کا روگ
لُطف کر ہے جو کُچھ دوا معلوم
دِل بجا ہو تو میر کچھ کھاوے
کڑھنے پچنے میں اِنتہا معلوم
میر تقی میر
میر تقی میر
ہے تہِ دِل بُتوں کا کیا معلوُم
نِکلے پردے سے کیا خُدا معلوم
یہی جانا، کہ کُچھ نہ جانا ہائے
سو بھی، اِک عمر میں ہُوا معلوم
عِلم سب کو ہے یہ کہ، سب تو ہے
پھر ہے الله کیسا نامعلوم
گرچہ توُ ہی ہے سب جگہ، لیکن
ہم کو تیری نہیں ہے جا معلوم
عِشق، جانا تھا مار رکھّے گا
اِبتدا میں تھی اِنتہا معلوم
اِن سیہ چشم دِلبروں سے ہمیں
تھی وفا چشم ، سو وفا معلوم
طرز کِینے کی کوئی چُھپتی ہے
مُدّعی کا ہے مُدّعا معلوم
عِشق ہے، اے طبیب! جی کا روگ
لُطف کر ہے جو کُچھ دوا معلوم
دِل بجا ہو تو میر کچھ کھاوے
کڑھنے پچنے میں اِنتہا معلوم
میر تقی میر