میر مِیر تقی مِیرؔ ::::: آئی ہے اُس کے کُوچے سے ہوکر صبا کُچھ اور::::: Mir Taqi Mir

طارق شاہ

محفلین


غزلِ

میر تقی میؔر


آئی ہے اُس کے کُوچے سے ہوکر صبا کُچھ اور
کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہَوا کُچھ اور

تدبِیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے
بیماری اور کُچھ ہے، کریں ہیں دوا کُچھ اور

مستان ِعِشق و اہلِ خرابات میں ہے فرق
مے خوارگی کُچھ اور ہے یہ ، نشّہ تھا کُچھ اور

کیا نسبت اُس کی قامتِ دِلکش سے سرو کو
انداز اِس کا اور کُچھ، اُس کی ادا کُچھ اور

مانجا جو آرسی نے بہت آپ کو، تو کیا
رُخسار کے ہے سطح کے اُس کے صفا کُچھ اور

اُس کی زیادہ گوئی سے دِل داغ ہو گیا
شِکوہ کِیا جب اُس سے ، تب اُن نے کہا کُچھ اور

اِس طَور سے تمھارے تو مرتے نہیں ہیں ہم
اب واسطے ہمارے نِکالو جفا کُچھ اور

صُورت پَرست ہوتے نہیں معنی آشنا
ہے عِشق سے بُتوں کے، مِرا مُدّعا کُچھ اور

مرنے پہ جان دیتے ہیں وارفتگان عِشق
ہے مِیؔرراہ و رسم دیارِ وفا کُچھ اور

مِیر تقی مِیرؔ

 

طارق شاہ

محفلین
بہت عمدہ طارق صاحب۔ عروض پر اس کو شامل کر دیا ہے۔
کمال کی غزل ہے ،نہ صرف ردیف کی خوبصورت بندش پر
بلکہ
ہر شعر ،حرف حرف کا استعمال نہایت استادانہ ہے
مبتدیوں کے لئے مفید اور کہنہ مشقوں کے لئے لطف کی حامل غزل عروضی اسباق اورتقطیع کے لئے اچھا اضافہ ہے
بہت تشکر سید ذیشان صاحب
 

سید ذیشان

محفلین
کمال کی غزل ہے ،نہ صرف ردیف کی خوبصورت بندش پر
بلکہ
ہر شعر ،حرف حرف کا استعمال نہایت استادانہ ہے
مبتدیوں کے لئے مفید اور کہنہ مشقوں کے لئے لطف کی حامل غزل عروضی اسباق اورتقطیع کے لئے اچھا اضافہ ہے
بہت تشکر سید ذیشان صاحب

بیشک، نہایت خوبصورت غزل ہے۔ شئیر کرنے کا شکریہ۔ :)
 
Top