میر میں رنجِ عشق کھینچے بہت ناتواں ہوا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
میں رنجِ عشق کھینچے بہت ناتواں ہوا
مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا

بستر سے اپنے اٹھ نہ سکا شب ہزار حیف
بیمارِ عشق چار ہی دن میں گراں ہوا

شاید کہ دل تڑپنے سے زخمِ دروں پھٹا
خوں ناب میری آنکھوں سے منھ پر رواں ہوا

غیر از خدا کی ذات مرے گھر میں کچھ نہیں
یعنی کہ اب مکان مرا لامکاں ہوا

مستوں میں اس کی کیسی تعین سے ہے نشست
شیشہ ہوا نہ کیف کا پیرِ مغاں ہوا

سائے میں تاک کے مجھے رکھا اسیر کر
صیاد کے کرم سے قفس آشیاں ہوا

ہم نے نہ دیکھا اس کو سو نقصانِ جاں کیا
ان نے جو اک نگاہ کی اس کا زیاں ہوا

ٹک رکھ لے ہاتھ تن میں نہیں اور جاے زخم
بس میرے دل کا یار جی اب امتحاں ہوا

وے تو کھڑے کھڑے مرے گھر آ کے پھر گئے
میں بے دیار و بے دل و بے خانماں ہوا

گردش نے آسماں کی عجائب کیا سلوک
پیرِ کبیر جب میں ہوا وہ جواں ہوا

مرغِ چمن کی نالہ کشی کچھ خنک سی تھی
میں آگ دے چمن کو جو گرمِ فغاں ہوا

دو پھول لاکے پھینک دیے میری گور پر
یوں خاک میں ملا کے مجھے مہرباں ہوا

سر کھینچا دودِ دل نے جہاں تیرہ ہو گیا
دم بھر میں صبح زیرِ فلک کیا سماں ہوا

کہتے ہیں میرؔ سے کہیں اوباش لڑ گئے
ہنگامہ ان سے ایسا الٰہی کہاں ہوا

(میر تقی میرؔ)
 
آخری تدوین:
Top