میر کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
کڑھتے جو رہے ہجر میں بیمار ہوئے ہم
بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم

بہلانے کو دل باغ میں آئے تھے سو بلبل
چلانے لگی ایسے کہ بیزار ہوئے ہم

جلتے ہیں کھڑے دھوپ میں جب جاتے ہیں اودھر
عاشق نہ ہوئے اس کے گنہگار ہوئے ہم

اک عمر دعا کرتے رہے یار کو دن رات
دشنام کے اب اس کے سزاوار ہوئے ہم

ہم دام بہت وحشی طبیعت تھے اٹھے سب
تھی چوٹ جو دل پر سو گرفتار ہوئے ہم

چیتے ہوئے لوگوں کی بھلی یا بری گذری
افسوس بہت دیر خبردار ہوئے ہم

کیا کیا متمول گئے بک دیکھتے جس پر
بیعانگی میں اس کے خریدار ہوئے ہم

کچھ پاس نہیں یاری کا ان خوش پسروں کو
اس دشمنِ جانہا سے عبث یار ہوئے ہم

گھٹ گھٹ کے جہاں میں رہے جب میؔر سے مرتے
تب یاں کے کچھ اک واقف اسرار ہوئے ہم

میر تقی میؔر
 
Top