میر پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا ۔ میر تقی میرؔ

فرخ منظور

لائبریرین
پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا
دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا

کاٹے ہیں خاک اڑا کر جوں گردباد برسوں
گلیوں میں ہم ہوئے ہیں اس بن خراب کیا کیا

کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش
اس کے خیال میں ہم دیکھے ہیں خواب کیا کیا

انواعِ جرم میرے پھر بے شمار و بے حد
روزِ حساب لیں گے مجھ سے حساب کیا کیا

اک آگ لگ رہی ہے سینوں میں کچھ نہ پوچھو
جل جل کے ہم ہوئے ہیں اس بن کباب کیا کیا

افراطِ شوق میں تو رویت رہی نہ مطلق
کہتے ہیں میرے منھ پر اب شیخ و شاب کیا کیا

پھر پھر گیا ہے آ کر منھ تک جگر ہمارے
گذرے ہیں جان و دل پر یاں اضطراب کیا کیا

آشفتہ اس کے گیسو جب سے ہوئے ہیں منھ پر
تب سے ہمارے دل کو ہے پیچ و تاب کیا کیا

کچھ سوجھتا نہیں ہے مستی میں میرؔ جی کو
کرتے ہیں پوچ گوئی پی کر شراب کیا کیا


(میر تقی میرؔ)
 
Top