میر آنکھیں سفید دل بھی جلا انتظار میں ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
آنکھیں سفید دل بھی جلا انتظار میں
کیا کچھ نہ ہم بھی دیکھ چکے ہجرِ یار میں

دنیا میں ایک دو نہیں کرتا کوئی مقام
جو ہے رواروی ہی میں ہے اس دیار میں

دیکھی تھیں ایک روز تری مست انکھڑیاں
انگڑائیاں ہی لیتے ہیں اب تک خمار میں

اخگر تھا دل نہ تھا مرا جس سے تہِ زمیں
لگ لگ اٹھی ہے آگ کفن کو مزار میں

بے دم ہیں دام گاہ میں اک دم تو چل کے دیکھ
سنتے ہیں دم نہیں کسی تیرے شکار میں

محمل کے تیرے گرد ہیں محمل کئی ہزار
ناقہ ہے ایک لیلیٰ کا سو کس قطار میں

شور اب چمن میں میری غزل خوانی کا ہے میرؔ
اک عندلیب کیا ہے کہوں میں ہزار میں

(میر تقی میرؔ)
 
Top