میر میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی ۔ میر تقی میر

فاتح

لائبریرین
محمد وارث صاحب نے لفظ اللہ کے وزن کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی مشہور زمانہ غزل وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ" کا حوالہ دیا کہ اس غزل میں "اللہ اللہ" کو کس وزن پر باندھا گیا ہے تو ہمارے ذہن میں میر تقی میر کی اس غزل کا مصرع آ گیا کہ اس میں میر نے "اللہ اللہ" کو فاعلاتن کے وزن پر نظم کیا ہے۔ یوں اس غزل کو محفل پر احباب کے ساتھ شیئر کرنے کا خیال آیا:​
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی​
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی​
خاطرِ بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں​
خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی​
ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج​
اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی​
مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے​
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی​
بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا​
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی​
کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے​
وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی​
اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرورِ خوبی​
منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی​
کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشکِ بہار​
رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی​
سر گذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا​
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی​
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو​
شہر دلّی میں ہے سب پاس نشانی اس کی​
میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار​
کیا عوض چاہ کا تھا خصمیِ جانی اس کی​
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی، پھوٹ بہے​
درد مندی میں گئی ساری جوانی اس کی​
اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل​
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی​
میر تقی میر​
 
محمد وارث صاحب نے لفظ اللہ کے وزن کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی مشہور زمانہ غزل وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ" کا حوالہ دیا کہ اس غزل میں "اللہ اللہ" کو کس وزن پر باندھا گیا ہے تو ہمارے ذہن میں میر تقی میر کی اس غزل کا مصرع آ گیا کہ اس میں میر نے "اللہ اللہ" کو فاعلاتن کے وزن پر نظم کیا ہے۔ یوں اس غزل کو محفل پر احباب کے ساتھ شیئر کرنے کا خیال آیا:​
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی​
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی​
خاطرِ بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں​
خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی​
ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج​
اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی​
مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے​
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی​
بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا​
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی​
کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے​
وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی​
اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرورِ خوبی​
منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی​
کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشکِ بہار​
رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی​
سر گذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا​
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی​
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو​
شہر دلّی میں ہے سب پاس نشانی اس کی​
میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار​
کیا عوض چاہ کا تھا خصمیِ جانی اس کی​
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی، پھوٹ بہے​
درد مندی میں گئی ساری جوانی اس کی​
اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل​
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی​
میر تقی میر​
زمانہ طالبعلمی کی بھولی بسری یادیں :)
کبھی ہم یہ غزل گنگنایا کرتے تھے
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 
واہ واہ بہت خوب لاجواب انتخاب ہے ۔
غزل کے چند گنے چُنے اشعار تک ہی ہماری واقفیت تھی آپ کے توسط سے مکمل غزل پڑھنے کو ملی ۔شکریہ قبول کیجئے۔
ویسے اس غزل کو ہم نے بھی شیئر کرنے کا سوچا تھا لیکن بس سوچتے ہی رہ گئے :)
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ بہت خوب لاجواب انتخاب ہے ۔
غزل کے چند گنے چُنے اشعار تک ہی ہماری واقفیت تھی آپ کے توسط سے مکمل غزل پڑھنے کو ملی ۔شکریہ قبول کیجئے۔
ویسے اس غزل کو ہم نے بھی شیئر کرنے کا سوچا تھا لیکن بس سوچتے ہی رہ گئے :)
اتنا سوچا مت کیجیے۔۔۔کر گزرا کریں :)
پذیرائی پر ممنون ہوں
 

باباجی

محفلین
واہ بہت خوب شیئرنگ استاد محترم
یہ آپ لوگوں کی مہربانی ہے کہ کلاسیکی کلام پڑھنے کو مل جاتا ہے
 
Top