غزل خفا ہیں؟مگر! بات تو کیجیے ملیں مت، ملاقات تو کیجیے ملیں گے اگر تو ملیں گے کہاں بیاں کچھ مقامات تو کیجیے پلائیں نہ پانی ،بٹھائیں بھی مت...
[IMG] غزل چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے ! ہرایک لحظہ، ہراِک...
[IMG] غزل دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا! جذبہ وہ دِل کا ہم...
وہ دَمکتی ہوئی لَو ،کہانی ہوئی، وہ چمکدار شعلہ، فسانہ ہُوا وہ جو اُلجھا تھا وحشی ہَوا سے کبھی، اُس دِیے کو بُجھے تو زمانہ ہُوا باغ میں پُھول اُس...
اسے تو پاسِ خلوصِ وفا ذرا بھی نہیں مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں...
کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا دھوپ میں پھرنا، گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا ساتھ اس کے کوئی منظر، کوئی پس منظر نہ ہو اِس طرح میں چاہتا ہوں...
سوچنا، روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا یہ بھی کیا سانس کو تلوار بنائے رکھنا راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے، ابھی سے سن لو ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے...
میں جرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ میں ورنہ تمہیں اذنِ رہائی نہیں دیتا چرکے بھی...
غزل موسموں کا مزاج اچھا ہے کل سے بہتر ہے آج، اچھا ہے فرد بہتر، معاشرہ بہتر آپ اچھے، سماج اچھا ہے روٹھ کر بھی وہ مسکراتے ہیں یہ چلن، یہ رواج...
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا میں روتا رہ گیا...
خوئے اظہار نہیں بدلیں گے ہم تو کردار نہیں بدلیں گے غم نہیں بدلیں گے یارو، جب تک غم کے معیار نہیں بدلیں گے لوگ آئینے بدلتے ہیں، مگر اپنے اطوار...
سن کے گھبرا گئے تھے جو نامِ خزاں آ گئی راس ان کو بھی شامِ خزاں ہم بہاروں سے مایوس کیا ہو گئے دیس میں بڑھ گئے یونہی دامِ خزاں غم ضروری ہے قدرِ...
ہیں میرے قلب و نظر، لعل اور گہر میرے سمیٹ لیں مرے ریزوں کو شیشہ گر میرے وه بول ہوں کہ کہیں نغمہ ہوں، کہیں فریاد وہ لفظ ہوں کہ معانی، ہیں منتشر...
[IMG] غزل کرب چہرے کا چھپاتے کیسے پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے مسکراہٹ سی سجاتے کیسے بعد مُدّت کی خبرگیری پر اشک...
دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو...
اخیرِ شب جو میں دستِ دعا اٹھاؤں گا لبوں پہ صرف تری آرزو ہی لاؤں گا خدا کی وسعتِ رحمت کو آزماؤں گا میں پھر سے بابِ اجابت کو کھٹکھٹاؤں گا ہو جس...
کسے معلوم تھا، اس شے کی بھی تجھ میں کمی ہو گی گماں تھا، تیرے طرزِ جبر میں شائستگی ہو گی مجھے تسلیم ہے، تو نے محبت مجھ سے کی ہو گی مگر حالات نے...
درگزر کرنے کی عادت سیکھو اے فرشتو! بشریت سیکھو ربِّ واحد کے پجاری ہو اگر تم جو کثرت میں ہو، وحدت سیکھو دشت، جو ابر کے محتاج نہیں ان سے پیرایۂ...
کتنے سر تھے جو پروئے گئے تلواروں میں گنتیاں دب گئیں تاریخ کے طوماروں میں شہر ہیں یہ، کہ تمدن کے عقوبت خانے عمر بھر لوگ چنے رہتے ہیں دیواروں میں...
ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں