”پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے“
خداوندا ہلالِ نو مہِ کامل نہ بن جائے
وفائے دوست محرومِ شکیبائی نہ کر ڈالے
مسيحا جس کو بننا ہے، وہی قاتل نہ بن جائے
بڑی مشکل سے میں نے کائناتِ دل کو بدلا تھا
مگر یہ ہو کے محرومِ سکوں پھر دل نہ بن جائے
میں تیرے شوق کی قوت کا منکر تو نہیں لیکن
محبت کے...
اپنی جانب ان کی رفتارِ خراماں دیکھیے
ان کی جانب دل کے ہر ذرے کو رقصاں دیکھیے
خطہ خطہ پائیے دل کا ہلاکِ آرزو!
گوشہ گوشہ آرزو کا گل بداماں دیکھیے
سب سے چھپ کر دیکھیے، سب سے چھپا کر دیکھیے
یعنی وہ روئے حسیں تا حدِ امکاں دیکھیے
دیکھیے کیوں خارج از خود جلوۂ روئے حبیب
اپنی ہی لوحِ جبیں میں روئے...
سمجھتے ہیں مگر سمجھائیں یہ اسرار کیسے
کہ اپنے راستے ہونے لگے ہموار کیسے
جہاں مضبوط بیڑے بھی نہ بچ پائیں بھنور سے
شکستہ ناؤ کر جاتی ہے دریا پار کیسے
خبر کس کو کرشمہ ہے دوا کا یا دعا کا
دنوں میں دُور اپنے ہو گئے آزار کیسے
کبھی سرگوشیاں اندر کی سن پائیں تو جانیں
کہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں پسِ...
غزل
طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں
مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں
بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں
دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں
ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں
کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں
غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
غزل
(جلیلؔ مانک پوری)
اپنے رہنے کا ٹھکانا اور ہے
یہ قفس یہ آشیانا اور ہے
موت کا آنا بھی دیکھا بارہا
پر کسی پر دل کا آنا اور ہے
ناز اٹھانے کو اٹھاتے ہیں سبھی
اپنے دل کا ناز اٹھانا اور ہے
درد دل سن کر تمہیں نیند آ چکی
بندہ پرور یہ فسانا اور ہے
رات بھر میں شمع محفل جل بجھی
عاشقوں کا...
آج تک کیسے گزاری ہے یہ اب پوچھتی ہے
رات ٹوٹے ہوئے تاروں کا سبب پوچھتی ہے
تو اگر چھوڑ کے جانے پہ تُلا ہے تو جا
جان بھی جسم سے جاتی ہے تو کب پوچھتی ہے
کل مرے سر پہ مرا تاج تھا تو سب تھے مرے
آج دنیا یہ مرا نام و نسب پوچھتی ہے
میں چراغوں کی لویں تھام کے سو جاتا ہوں
رات جب مجھ سے مرا حسنِ طلب...
کچھ ایسے نظر صاحبِ کردار بھی آئے
تعظیم کو جن کی در و دیوار بھی آئے
تاریکیِ شب نے مرا دامن نہیں چھوڑا
حالانکہ نظر صبح کے آثار بھی آئے
اے وعدہ فروشو! ہمیں حیرت سے نہ دیکھو
ہم اہلِ وفا تھے تو سرِ دار بھی آئے
ٹھہرے نہ کبھی تیشہ بدستوں کے مقابل
کہنے کو بہت راہ میں کہسار بھی آئے
ہر روز مرے جسم کو...
ہمارے دل میں جو آتش فشاں ہے
جہنم میں بھی وہ گرمی کہاں ہے
میں اپنی حد میں داخل ہو رہا ہوں
مرے قدموں کے نیچے آسماں ہے
بہت دن سے پڑی ہیں خشک آنکھیں
مگر سینے میں اک دریا رواں ہے
تھا جس کا ذکر کل تک چہرہ چہره
نہ اب وہ ہے نہ اس کی داستاں ہے
پناہیں لے رہے ہیں جس میں سورج
ہمارے سر پہ ایسا سائباں ہے...
یوں اپنی محبت کو پُر کیف بنانا ہے
اک بار خفا کرنا، سو بار منانا ہے
اسرارِ محبت کو اے دوست چھپانا ہے
ہے شوق بہت سادہ پُرکار زمانا ہے
جو داغِ گنہ سارے اک بار مٹا ڈالے
اے چشمِ ندامت اب وہ اشک بہانا ہے
جلووں کے تقاضے پر وہ عذرِ شباب ان کا
کیا خوب تقاضا تھا، کیا خوب بہانا ہے
افسانۂ غم ان کا کیا...
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم
نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم
مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم
خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم
اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے!
بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم
سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا
عیاں کو جانتے...
محبت کے دریا بہا دینے والے
جفاؤں کے طوفاں اٹھا دینے والے
محبت کی پینگیں بڑھا دینے والے
عنایت کی رسمیں گھٹا دینے والے
محبت کے بدلے سزا دینے والے
وفاؤں کے بدلے دغا دینے والے
یہ نازک دماغی، یہ ناز آفرینی
بگڑ جانے والے، بنا دینے والے
جگہ دینے والے مجھے اپنے دل میں
نگاہوں سے اپنی گرا دینے والے...
کسی چراغ کی آنکھوں میں ڈر نہیں آئے
وہ رات ہی نہ ہو جس کی سحر نہیں آئے
میں کائنات کا وہ کمتر و حقیر چراغ
کہ جس کی لو بھی کسی کو نظر نہیں آئے
یہی ہے عشق میں جاناں خراشِ دل کا علاج
اسی کی راہ تکو جو نظر نہیں آئے
محبتوں کے امیں تھے صداقتوں کے سفیر
وہ لوگ ایسے گئے لوٹ کر نہیں آئے
دیارِ نوحہ گراں...
عزمؔ خود کو نڈھال مت کرنا
ٹوٹ کر بھی ملال مت کرنا
ایک جھوٹی نظیر بن جاؤ
کوئی ایسا کمال مت کرنا
خار بن کر جو دل میں چبھتے ہوں
ایسے رشتے بحال مت کرنا
عشق کرنا ہے تو کرو لیکن
اپنا جینا محال مت کرنا
جس کے بنتے ہو اس کے بن جاؤ
تم ہمارا خیال مت کرنا
٭٭٭
عزمؔ شاکری
گھر رہ کر یہ جانا ہے
گھر بھی مسافر خانہ ہے
توبہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
رستے میں میخانہ ہے
غم سے پیار کرو لوگو
غم انمول خزانہ ہے
کل کا وعدہ مت کیجے
کل تک تو مر جانا ہے
بھیس بدل کر پی لو یار
دنیا پاگل خانہ ہے
٭٭٭
عزمؔ شاکری
شاد تھے صیاد نے ناشاد ہم کو کر دیا
قید راس آئی تو پھر آزاد ہم کو کر دیا
روز نا کردہ گناہوں کی سزا سہتے ہیں ہم
وقت نے کیسا ستم ایجاد ہم کو کر دیا
ہم تھے آئینہ ہماری بدنصیبی تھی کہ جو
پتھروں کے شہر میں آباد ہم کو کر دیا
اور کیا اس سے زیادہ آئے گا فن پر زوال
وقت نے کتنا بڑا استاد ہم کو کر دیا...
جو پھولوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں
وہ خوشبو کا اک حصہ ہو جاتے ہیں
رونے والو! ان کو دامن میں رکھ لو
ورنہ آنسو آوارہ ہو جاتے ہیں
دولت کا نشّہ بھی کیسا نشّہ ہے
گونگے بہرے لوگ خدا ہو جاتے ہیں
عشق میں اپنی جان لٹانے والے لوگ
مر جاتے ہیں، پھر زندہ ہو جاتے ہیں
ایسے بھی ہوتے ہیں صحرا جیسے لوگ
جب روتے...
پہلا سا مرے حال پہ اکرام نہیں ہے
یعنی وہ مری صبح نہیں شام نہیں ہے
رسوا ہے وہی جو نہیں رسوائے محبت
جو عشق میں ناکام ہے ناکام نہیں ہے
اے ذوقِ جنوں اور بڑھے جوش جنوں کا
دامن ہے مرا جامۂ احرام نہیں ہے
ممکن نہیں ابہام نہ ہو عرض و بیاں میں
لیکن نگہِ شوق میں ابہام نہیں ہے
جب دیکھو عزیزؔ اس کے ہی...
یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں
ٹکرا کے آبگینے سے پتھر ہوا ہوں میں
آنکھوں کے جنگلوں میں مجھے مت کرو تلاش
دامن پہ آنسوؤں کی طرح آ گیا ہوں میں
یوں بے رخی کے ساتھ نہ منہ پھیر کے گزر
اے صاحبِ جمال ترا آئنہ ہوں میں
یوں بار بار مجھ کو صدائیں نہ دیجیے
اب وہ نہیں رہا ہوں کوئی دوسرا ہوں میں...
ناز ان کا نیاز ہے میرا
بندگی امتیاز ہے میرا
فکر کیا مجھ کو چارہ سازی کی
خود خدا چاره ساز ہے میرا
اپنے لطف و کرم میں دیر نہ کر
قصۂ غم دراز ہے میرا
جس نے صبر و قرار چھینا ہے
خود وہی دل نواز ہے میرا
میری باتیں وہی سمجھتا ہے
جو شناسائے راز ہے میرا
میرے لفظوں کے پیرہن پہ نہ جا
اک حقیقت مجاز ہے...
حسیں ہو اور پھر اس پر حسیں معلوم ہوتے ہو
تم اپنے حسن میں حسنِ یقیں معلوم ہوتے ہو
بہت ہی دور رہتے ہو تم آغوشِ محبت سے
مگر پھر بھی مجھے بالکل قریں معلوم ہوتے ہو
حیا آلود رخساروں سے کر دیتے ہو راز افشا
نگاہِ شوق کی شرحِ مبیں معلوم ہوتے ہو
بدل دو گے تم اپنی سب وفاؤں کو جفاؤں میں
تم ایسے تو ہمیں...