اقبال عظیم غزل: کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں

کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں
جو چارہ سازوں کی زد سے بچائے بیٹھے ہیں

نہ جانے کون سا آنسو کسی سے کیا کہہ دے
ہم اس خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں

نہ خوفِ بادِ مخالف، نہ انتظارِ سحر
ہم اپنے گھر کے دیے خود بجھائے بیٹھے ہیں

ہمارا ذوق جدا، وقت کا مزاج جدا
ہم ایک گوشے میں خود کو چھپائے بیٹھے ہیں

ہمارے دل میں ہیں محفوظ چند تاج محل
جنھیں ہم اپنا مقدر بنائے بیٹھے ہیں

زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو
ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں

ہم اپنی ذات سے اک عہد ہیں مگر اقبالؔ
ہم اپنے آپ کو قصداً بھلائے بیٹھے ہیں

٭٭٭
اقبالؔ عظیم
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت اعلیٰ!
ہمارا ذوق جدا، وقت کا مزاج جدا
ہم ایک گوشے میں خود کو چھپائے بیٹھے ہیں
کیا بات ہے ! واہ!
اقبال عظیم کی غزل عموماً روایت اور غنایت سے بھرپور ہوتی ہے ! اقبال عظیم میرے ایک قریبی ڈاکٹر دوست کے ماموں تھے اور وہ ان کے واقعات اکثر سنایا کرتا تھا ۔نابینا ہونے کے باعث وہ اکثر قریبی لوگوں کو ان کی "خوشبو" سے پہچان لیا کرتے تھے ۔

مقطع کو ایک نظر پھر سے دیکھ لیجئے گا تابش بھائی ! ٹائپو لگ رہا ہے ۔ ذات میں عہد ہونا تو معروف ہے لیکن ذات سے عہد ہونا غالباً درست نہیں ہے ۔
 
Top