اقبال عظیم غزل: شکستِ ظرف کو پندارِ رندانہ نہیں کہتے

شکستِ ظرف کو پندارِ رندانہ نہیں کہتے
جو مانگے سے ملے ہم اس کو پیمانہ نہیں کہتے

جہاں ساقی کے پائے ناز پر سجدہ ضروری ہو
وہ بت خانہ ہے، اس کو رند میخانہ نہیں کہتے

جنوں کی شرطِ اوّل ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے
جو دامن چاک کر لے اس کو دیوانہ نہیں کہتے

جو ہو جائے کسی کا مستقل، بے شرکتِ غیرے
وہ دل کعبہ ہے، اس دل کو صنم خانہ نہیں کہتے

نہایت شکریہ اس پرسشِ احوال کا لیکن
ہمیں عادت نہیں، ہم اپنا افسانہ نہیں کہتے

جہاں ہر وقت اک محفل سجی ہو تیری یادوں کی
اسے عشرت کدہ کہتے ہیں غم خانہ نہیں کہتے

غرض کچھ بھی ہو ہم کو یاد تو رکھتا ہے ہر لحظہ
عدو کو اپنے ہم اقبالؔ! بیگانہ نہیں کہتے

٭٭٭
اقبالؔ عظیم
 
شکستِ ظرف کو پندارِ رندانہ نہیں کہتے
جو مانگے سے ملے ہم اس کو پیمانہ نہیں کہتے

جہاں ساقی کے پائے ناز پر سجدہ ضروری ہو
وہ بت خانہ ہے، اس کو رند میخانہ نہیں کہتے

جنوں کی شرطِ اوّل ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے
جو دامن چاک کر لے اس کو دیوانہ نہیں کہتے

جو ہو جائے کسی کا مستقل، بے شرکتِ غیرے
وہ دل کعبہ ہے، اس دل کو صنم خانہ نہیں کہتے

نہایت شکریہ اس پرسشِ احوال کا لیکن
ہمیں عادت نہیں، ہم اپنا افسانہ نہیں کہتے

جہاں ہر وقت اک محفل سجی ہو تیری یادوں کی
اسے عشرت کدہ کہتے ہیں غم خانہ نہیں کہتے

غرض کچھ بھی ہو ہم کو یاد تو رکھتا ہے ہر لحظہ
عدو کو اپنے ہم اقبالؔ! بیگانہ نہیں کہتے

٭٭٭
اقبالؔ عظیم
خوبصورت انتخاب۔
 
Top