غزل: ہو روئے حسیں کا جو پرستار کہاں جائے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

ہو روئے حسیں کا جو پرستار کہاں جائے
اٹھ کر تری محفل سے اے یار کہاں جائے

تسکین دلِ زار کا سرمایہ تو ہے تو!
اب لے کے کوئی اپنا دلِ زار کہاں جائے

زاہد کے لیے باز ہے در بزمِ ہوس کا
لیکن یہ محبت کا گنہ گار کہاں جائے

جو دید کا مشتاق ہو پہنچے وہ سرِ بزم
ہو جس کو محبت تری درکار کہاں جائے

سنتا ہوں کہ بیمار ہے وہ رشکِ مسیحا
اب کہیے کہ جو اس کا ہو بیمار کہاں جائے

ہے کشتۂ انکار کا تو موت مداوا
لیکن یہ ترا کشتۂ اقرار کہاں جائے

گلچیں نے کیا گلشنِ سرسبز کو تاراج!
اب ہو کے رِہا مرغِ گرفتار کہاں جائے

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
 
Top