طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خلؔش
ا گر نہ لُطف دِل و جاں پہ بے بہا ہوگا
تو اِضطِراب ہی بے حد و اِنتہا ہوگا

خُدا ہی جانے، کہ درپیش کیا رہا ہوگا
ہمارے بارے اگر اُس نے یہ کہا ہوگا

ہُوا نہ مجھ سے جُدائی کے ہر عذاب کا ذکر !
اِس اِک خیال سے، اُس نے بھی یہ سہا ہوگا

خیال آئے بندھی ہچکیوں پہ اس کا ضرور
کسی بہانے ہمیں یاد کر رہا ہوگا

ہے لعن و طعن کی پروا کِسے زمانے کی !
یقیں نہ آئے کہ اُس نے بھی یُوں کہا ہوگا

دُعا یہی کہ کفالت کو مُعتَبر ٹھہرے !
ہمارے قتل کا حاصِل جو خُوں بہا ہوگا

دِلوں سے سب کے اُتارے گئے ہیں ایسے خلش
اب اُن کا ذکر مُسلسل، نہ بارہا ہوگا

حیات نامی یہ زِنداں بھی اِنہِدام کو ہے
نہ دِن وہ دُور خلشؔ قید سے رہا ہوگا

شفیق خلؔش
 
Top