سلام
(جبار واصف)
حسین سچا حسین اعلیٰ حسین اشرف حسین برتر
یزید جھوٹا یزید اسفل یزید ارذل یزید کمتر
حسین مسلم حسین مومن حسین عالم حسین عادل
یزید مرتد یزید ملحد یزید جاہل یزید قاتل
حسین صادق حسین ابیض حسین مصلح حسین صابر
یزید کاذب یزید اسود یزید مفسد یزید جابر
حسین مثبت حسین کامل حسین داخل حسین...
سلام
( جبار واصف)
مرے حسین سے جو بد گمان ہو جائے
مری دعا ہے کہ وہ بے نشان ہو جائے
کروں گا پھر علی اکبر پہ گفتگو تجھ سے
خدا کرے ترا بیٹا جوان ہو جائے
منافقوں کی تسلی بہت ضروری ہے
غدیر خم کا ذرا پھر بیان ہو جائے
علی کے روپ میں ہوتا ہے یا علی پیدا
کوئی مکان اگر لا مکان ہو جائے
خدا سلاتا ہے...
غزل
(اقبال اسلم)
لڑتا ہوں بھنور سے ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
ساگر میں سما جاؤں وہ قطرہ تو نہیں ہوں
میں اپنی طرح ہوں ترے جیسا تو نہیں ہوں
بازار میں بکتا ہوا سودا تو نہیں ہوں
عکاس ہے آئینہ ابھی میری انا کا
ٹوٹا ہوں مگر ٹوٹ کے بکھرا تو نہیں ہوں
پھر سے اسی میدان میں آؤں گا پلٹ کر
کچھ پیچھے سرک آیا...
غزل
(اقبال اسلم)
سانس چلتی ہے جان باقی ہے
عشق کا امتحان باقی ہے
پر شکستہ نہ جانئے صاحب
حوصلوں کی اڑان باقی ہے
آخری تیر بھی ہے ترکش میں
ہاتھ میں بھی کمان باقی ہے
پاؤں کے نیچے ہے زمیں اب تک
سر پہ بھی آسمان باقی ہے
آندھیاں ہو گئی ہیں پھر ناکام
بستیوں میں مکان باقی ہے
غزل
(جون ایلیا رحمتہ اللہ علیہ)
آخری بار آہ کر لی ہے
میں نے خود سے نباہ کر لی ہے
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
دن بھلا کس طرح گزارو گے
وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے
جاں نثاروں پہ وار کیا کرنا
میں نے بس ہاتھ میں سپر لی ہے
جو بھی مانگو ادھار دوں گا میں
اس گلی میں دکان کر...
غزل
مانِع حُصولِ یار میں تقدیر اب بھی ہے
استادہ صف بہ صف لیے شمشیر اب بھی ہے
پھیلائے کم نہ ربط و تعلّق کے باوجُود!
ہم تک خبر کے آنے میں تاخیر اب بھی ہے
حاصل نہیں جِلو کی وہ رعنائیاں، مگر
ہر اِک گُزشتہ لُطف کی تاثیر اب بھی ہے
مُدّت ہُوئی کہ اُن سے عِلاقہ نہیں کوئی !
نِسبت سے لیکن اپنی وہ...
غزل
کہاں گئے میرے دِلدار و غمگُسار سے لوگ
وہ دِلبَرانِ زَمِیں، وہ فَلک شِعار سے لوگ
!وہ موسَموں کی صِفَت سب کو باعثِ تسکِیں
وہ مہْر و مَہ کی طرح، سب پہ آشکار سے لوگ
ہر آفتاب سے کِرنیں سَمیٹ لیتے ہیں
ہمارے شہر پہ چھائے ہُوئے غُبار سے لوگ
ہم ایسے سادہ دِلوں کی، کہیں پہ جا ہی نہیں
چہار سمْت...
غزل
یُوں تو چلنے کوسبھی چند قدم چلتے ہیں
ہمسفر وہ ہیں، جو ہر حال بَہم چلتے ہیں
فکر و فن راہ نُما ہوں، تو قلم چلتے ہیں
سخت و سنگلاخ زمِیں پر بھی قدم چلتے ہیں
نقدِ جاں، سکّۂ ایثار و وَفا، لے کے چلو
اُن کے کُوچے میں کہاں دام و دِرم چلتے ہیں
ہم فقیروں کی تو بستی سے نہ گُزرے اب تک
جانے کِس راہ...
غزل
جوكہی تجھ سے بات كہہ دينا
ہےمصيبت میں ذات كہہ دینا
أن كے جانے سے جو ہُوئی طارى
وه كٹی ہے نہ رات كہہ دینا
ہم دِل آزارى پر، پَشیماں ہیں !
پُوچھ كر ذات پات كہہ دينا
اِستتقامت جو قول و فعل میں تھى
ہے وه، اب بھى ثبات كہہ دينا
معنٰی ركھتے نہیں بغیر أن كے
کچھ حيات وممات كہہ دينا
أن كى صرفِ...
غزل
خوش باش زندگی کے کسی باب کی طرح
ہم دن گُزار آئے حَسِیں خواب کی طرح
پل بھر نہ اِنحِرافِ نظارہ، نہ اِحتِمال!
تھے کم نہ لُطفِ دید میں مہتاب کی طرح
بارآورایک بھی دِلی خواہش نہیں ہوئی
گُزری ہر ایک شب شَبِ سُرخاب کی طرح
ہم دِل کی بے بَسی کا ازالہ نہ کر سکے!
گھیرا تھا اُن کےعشق نے گرداب کی...
غزل
شفیق خلؔش
ا گر نہ لُطف دِل و جاں پہ بے بہا ہوگا
تو اِضطِراب ہی بے حد و اِنتہا ہوگا
خُدا ہی جانے، کہ درپیش کیا رہا ہوگا
ہمارے بارے اگر اُس نے یہ کہا ہوگا
ہُوا نہ مجھ سے جُدائی کے ہر عذاب کا ذکر !
اِس اِک خیال سے، اُس نے بھی یہ سہا ہوگا
خیال آئے بندھی ہچکیوں پہ اس کا ضرور
کسی بہانے ہمیں...
کراچی: کراچی کے وکلاء نے سٹی کورٹ کے احاطے میں درخت لگا کر شجرکاری مہم کا آغاز کردیا، وکلاء کہتے ہیں شجرکاری سے ہی ہم ماحولیاتی آلودگی اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرسکتے ہیں۔
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حسیب جمالی کی جانب سے سٹی کورٹ کے احاطے میں درخت لگانے کی آگہی مہم کا انعقاد کیا گیا۔
جس میں...