غزل
(آتش بہاولپوری)
مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
میری بھی کوئی قیمت ہوگئی ہے
وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں
یہ دنیا خوب صورت ہوگئی ہے
چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں
بیاں مجھ سے حقیقت ہوگئی ہے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
مگر پانی کی قلت ہوگئی ہے
مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہوگئی...
تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی، وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی، واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
آشفتگیِ وحشت کی قسم، حیرت کی قسم، حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں، ہم رازِ...
غزل
(نظام رامپوری)
کبھی ملتے تھے وہ ہم سے زمانہ یاد آتا ہے
بدل کر وضع چھپ کر شب کو آنا یاد آتا ہے
وہ باتیں بھولی بھولی اور وہ شوخی ناز و غمزہ کی
وہ ہنس ہنس کر ترا مجھ کو رُلانا یاد آتا ہے
گلے میں ڈال کر بانہیں وہ لب سے لب ملا دینا
پھر اپنے ہاتھ سے ساغر پلانا یاد آتا ہے
بدلنا کروٹ اور تکیہ مرے...
غزل
(نظام رامپوری)
وہ بگڑے ہیں، رکے بیٹھے ہیں، جھنجلاتے ہیں، لڑتے ہیں
کبھی ہم جوڑتے ہیں ہاتھ گاہے پاؤں پڑتے ہیں
گئے ہیں ہوش ایسے گر کہیں جانے کو اُٹھتا ہوں
تو جاتا ہوں اِدھر کو اور اُدھر کو پاؤں پڑتے ہیں
ہمارا لے کے دل کیا ایک بوسہ بھی نہیں دیں گے
وہ یوں دل میں تو راضی ہیں مگر ظاہر جھگڑتے ہیں...
غزل
(بشیر بدر بھوپالی)
دل میں اک تصویر چھپی تھی آن بسی ہے آنکھوں میں
شاید ہم نے آج غزل سی بات لکھی ہے آنکھوں میں
جیسے اک ہریجن لڑکی مندر کے دروازے پر
شام دیوں کی تھال سجائے جھانک رہی ہے آنکھوں میں
اس رومال کو کام میں لاؤ اپنی پلکیں صاف کرو
میلا میلا چاند نہیں ہے دھول جمی ہے آنکھوں میں
پڑھتا...
غزل
اُس کے غم کو، غمِ ہستی تو مِرے دِل نہ بنا
زِیست مُشکل ہے اِسے اور بھی مُشکل نہ بنا
تُو بھی محدُود نہ ہو، مجھ کو بھی محدُود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزِل نہ بنا
اور بڑھ جائے گی وِیرانیِ دل جانِ جہاں !
میری خلوت گہہِ خاموش کو محفِل نہ بنا
دِل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا...
غزل
(بشیر بدر بھوپالی)
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
اُجالوں کی پریاں نہانے لگیں
ندی گُنگنائی خیالات کی
میں چُپ تھا تو چلتی ہوا رُک گئی
زباں سب سمجھتے ہیں جذبات کی
مقدر مری چشمِ پُر آب کا
برستی ہوئی رات برسات کی
کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں
کہاں دن گزارا کہاں رات کی
غزل
( سمپورن سنگھ کلرا، گلزار)
جب بھی یہ دل اُداس ہوتا ہے
جانے کون آس پاس ہوتا ہے
آنکھیں پہچانتی ہیں آنکھوں کو
درد چہرہ شناس ہوتا ہے
گو برستی نہیں سدا آنکھیں
ابر تو بارہ ماس ہوتا ہے
چھال پیڑوں کی سخت ہے لیکن
نیچے ناخن کے ماس ہوتا ہے
زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے
درد دل کا لباس ہوتا ہے
ڈس ہی...
غزل
(محمود شام - کراچی)
کوئی دستار سلامت نہ گریباں اب کے
کیسے آغاز ہوئی صبحِ بہاراں اب کے
روز ملتا ہے نیا رقصِ جنوں دیکھنے کو
فارغ اک لمحہ نہیں دیدہء حیراں اب کے
وحشتیں توڑ کے ہر بند نکل آئی ہیں
نادم انسان کی حرکت پہ ہے حیواں اب کے
فیصلے زور سے اور جبر سے کرتے ہیں ہجوم
یہ ہے سلطانی جمہور کا...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
بیدار اِس خیال سے اب ہو رہا ہوں میں
آنکھیں کھُلی ہیں لاکھ مگر سو رہا ہوں میں
شاید مری طرح یہ نہیں واقفِ مآل
گو پھُول ہنس رہے ہیں مگر رو رہا ہوں میں
کیا ہو مآلِ سعی مجھے کچھ خبر نہیں
کشتِ عمل میں بیج مگر بو رہا ہوں میں
کرنی کی راہ اور ہے، بھرنی کی راہ اور...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
یہ کس فضا میں نامِ خدا جا رہا ہوں میں
مانندِ جبرئیل اُڑا جا رہا ہوں میں
منزل مری کہاں ہے، مجھے کچھ خبر نہیں
دریا ہوں اپنی رَو میں بہا جا رہا ہوں میں
پردے سے لاؤں کیا تمہیں باہر نکال کر
اپنی نظر سے آپ چھپا جا رہا ہوں میں
نو واردانِ محفلِ ہستی، خوش آمدید...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
فکر کی کون سی منزل سے گزرتا ہوں میں
اب تو اک شعر بھی کہتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
حوصلہ دل کا بڑھاتی ہے عزائم کی شکست
خونِ جذبات سے کچھ اور نکھرتا ہوں میں
کس کے پَرتو سے مری رُوح کو ملتا ہے جمال
کس کی تہذیب کے صدقے میں سنورتا ہوں میں
میری فن کار طبیعت کا یہ...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
رُخ تو میری طرف سے پھیرے ہیں
پھر بھی مدِّنظر وہ میرے ہیں
جس طرف میں نگاہ کرتا ہوں
کچھ اُجالے ہیں، کچھ اندھیرے ہیں
آپ کی مُسکراہٹوں کے نثار
پُھول چاروں طرف بکھیرے ہیں
کروٹیں وقت کی انہیں کہیئے
نہ ہیں شامیں نہ یہ سویرے ہیں
میں ہوں اُن کے سلوک کا کشتہ
جو...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
رفتہ رفتہ دُنیا بھر کے رشتے ناتے ٹوٹ رہے ہیں
بیگانوں کا ذکر ہی کیا جب اپنے ہم سے چُھوٹ رہے ہیں
اُن کی غیرت کو ہم روئیں یا روئیں اپنی قسمت کو
جن کو بچایا تھا لُٹنے سے اب وہ ہم کو لُوٹ رہے ہیں
ساقی تیری لغزشِ پیہم ختم نہ کر دے میخانے کو
کتنے ساغر ٹُوٹ چکے...