طارق شاہ
محفلین
غزل
اُس کے غم کو، غمِ ہستی تو مِرے دِل نہ بنا
زِیست مُشکل ہے اِسے اور بھی مُشکل نہ بنا
تُو بھی محدُود نہ ہو، مجھ کو بھی محدُود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزِل نہ بنا
اور بڑھ جائے گی وِیرانیِ دل جانِ جہاں !
میری خلوت گہہِ خاموش کو محفِل نہ بنا
دِل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زِیاں
عِشق کو عِشق سمجھ ، مشغلۂ دِل نہ بنا
پھر مِری آس بندھا کر مجھے مایُوس نہ کر
حاصلِ غم کو، خُدارا غمِ حاصِل نہ بنا
حمایت علی شاؔعر