کاشفی
محفلین
غزل
(آتش بہاولپوری)
مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
میری بھی کوئی قیمت ہوگئی ہے
وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں
یہ دنیا خوب صورت ہوگئی ہے
چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں
بیاں مجھ سے حقیقت ہوگئی ہے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
مگر پانی کی قلت ہوگئی ہے
مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہوگئی ہے
حقیقت یہ ہے ہم کیا اُٹھ گئے ہیں
وفا دنیا سے رخصت ہوگئی ہے
غمِ جاناں میں جب سے مبتلا ہوں
غمِ دوراں سے فرصت ہوگئی ہے
اب ان کی کفرِ سامانی بھی آتش
دل و جاں پر عبارت ہوگئی ہے
(آتش بہاولپوری)
مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
میری بھی کوئی قیمت ہوگئی ہے
وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں
یہ دنیا خوب صورت ہوگئی ہے
چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں
بیاں مجھ سے حقیقت ہوگئی ہے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
مگر پانی کی قلت ہوگئی ہے
مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہوگئی ہے
حقیقت یہ ہے ہم کیا اُٹھ گئے ہیں
وفا دنیا سے رخصت ہوگئی ہے
غمِ جاناں میں جب سے مبتلا ہوں
غمِ دوراں سے فرصت ہوگئی ہے
اب ان کی کفرِ سامانی بھی آتش
دل و جاں پر عبارت ہوگئی ہے