کاشفی

محفلین
غزل
(نظام رامپوری)
کبھی ملتے تھے وہ ہم سے زمانہ یاد آتا ہے
بدل کر وضع چھپ کر شب کو آنا یاد آتا ہے

وہ باتیں بھولی بھولی اور وہ شوخی ناز و غمزہ کی
وہ ہنس ہنس کر ترا مجھ کو رُلانا یاد آتا ہے

گلے میں ڈال کر بانہیں وہ لب سے لب ملا دینا
پھر اپنے ہاتھ سے ساغر پلانا یاد آتا ہے

بدلنا کروٹ اور تکیہ مرے پہلو میں رکھ دینا
وہ سونا آپ اور میرا جگانا یاد آتا ہے

وہ سیدھی اُلٹی اک اک منہ میں سو سو مجھ کو کہہ جانا
دم بوسہ وہ تیرا روٹھ جانا یاد آتا ہے

تسلّی کو دلِ بیتاب کی میری دمِ رُخصت
نئی قسمیں وہ جھوٹی جھوٹی کھانا یاد آتا ہے

وہ رشک غیر پر رو رو کے ہچکی میری بندھ جانا
فریبوں سے وہ تیرا شک مٹانا یاد آتا ہے

وہ میرا چونک چونک اُٹھنا سحر کے غم سے اور تیرا
لگا کر اپنے سینہ سے سُلانا یاد آتا ہے

کبھی کچھ کہہ کے وہ مجھ کو رُلانا اس ستم گر کا
پھر آنکھیں نیچی کر کے مُسکرانا یاد آتا ہے
 
Top