کلاسیکل شاعری

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::۱ِک قیامت سی بپا حالت میں ::::Shafiq-Khalish

    غزل کرب چہرے کا چھپاتے کیسے پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے مسکراہٹ سی سجاتے کیسے بعد مُدّت کی خبرگیری پر اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے دوستی میں رہے برباد نہ کم ! دشمنی کرتے نبھاتے کیسے درد و سوزش سے نہ تھا آسودہ دِل تصور سے لُبھاتے کیسے اِک قیامت سی بَپا حالت میں...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو !:::: Shafiq.Khalish

    غزل شاید کہِیں بھی ایسا اِک آئینہ گر نہ ہو اپنے ہُنر سے خود جو ذرا بَہرہ وَر نہ ہو شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو اپنی سُخن وَرِی میں اگر دِیدَہ وَر نہ ہو جانے کہاں گئی مِری ترغِیبِ زندگی جس کے بِنا حَیات یہ جیسے بَسر نہ ہو سَیر و صَبا کے جَھونکوں کی اُمّید اب نہیں طاری اِک ایسی...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::عِلم کب مُفت میں ہاتھ آئے خلشؔ::::Shafiq.Khalish

    غزل وَسوَسوں کا اُنھیں غلبہ دینا! چاہیں سوچوں پہ بھی پہرہ دینا وہ سلاسل ہیں، نہ پہرہ دینا چاہے دِل ضُعف کو تمغہ دینا ٹھہری شُہرت سے حَسِینوں کی رَوِش! حُسن کے سِحْر سے دھوکہ دینا خود کو دینے سا تو دُشوار نہیں اُن کا ہر بات پہ طعنہ دینا بُھولے کب ہیں رُخِ مہتاب کا ہم ! اوّل اوّل کا وہ...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::کب گیا آپ سے دھوکہ دینا:::: Shafiq.Khalish

    غزل کب گیا آپ سے دھوکہ دینا سب کو اُمّید کا تحفہ دینا چاند دینا، نہ سِتارہ دینا شَبْ بَہرطَور ہی تِیرَہ دینا سَبقَت اِفْلاس سے قائِم وہ نہیں ہے اَہَم پیار سے پَیسہ دینا در بَدر ہونا وہ کافی ہے ہَمَیں اب کوئی اور نہ نقشہ دینا ماسِوا یار کے، جانے نہ کوئی دلِ بے خوف کو خدشہ دینا کم...
  5. طارق شاہ

    اقبال عظیم :آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں :

    غزل اقبال عظیم آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں! آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں آپ...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو :::::shafiq khalish

    غزل شفیق خلشؔ کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو سُن کر بھی یُوں رہیں وہ کہ جیسے خبر نہ ہو شرمِندۂ عَمل ہُوں کہ صرفِ نظر نہ ہو دِل سے وہ بے بسی ہے کہ صُورت دِگر نہ ہو کوشش رہے اگرچہ، کوئی لمحۂ حیات! خود میں خیال اُن کا لیے جلوہ گر نہ ہو اِک اِلتماس تجھ سے بھی ایّامِ خُوب رفت! صُحبت...
  7. طارق شاہ

    جلیل حسن جلیلؔ (مانکپوری) :::: چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے-- Jaleel Hasan Jaleel Manakpoori

    غزل جلیل حسن جلیؔل چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے! آپ، جب آئے قیامت ہی اُٹھاتے آئے نالۂ گرم نے، اِتنا نہ کِیا تھا رُسوا اشک کمبخت تو، اور آگ لگاتے آئے دِل کو مَیں اُن کی نِگاہوں سے بچاتا، کیونکر دُور سے، تِیر نِشانے پہ لگاتے آئے آئے ہم سُوئے قَفس ، چھوڑ کے جب گُلشن کو آہ سے آگ نشیمن میں...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::ہُنر میں اُن سے کوئی اور کیا مَہا ہوگا:::::shafiq khalish

    غزل عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا! وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی، اس پہ کیا تکرار وُرُودِ صُبح پہ دِل نے تو کُچھ کہا...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے -Shafiq Khalish

    غزل بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے تو وجہ کیا کوئی باقی ہو دِل میں ڈر کے لیے طَلَب ذرا نہ ہو تکیہ کی عُمر بھر کے لیے! مُیَسّر اُن کا ہو زانُو جو میرے سر کے لیے تمنّا دِل میں کہاں اب کسی بھی گھر کے لیے نہیں ہے چاند مُیسّر جو بام و دَر کے لیے کوئی بھی پیار ہو، اِظہار سے عِبارت ہے! کریں...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش ۔۔ حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں!۔۔

    غزل شفیق خلشؔ حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں! انا کا پاس کرُوں کیا، کہ دِل ہی بس میں نہیں جُدا ہُوا نہیں مجھ سے ، جو ایک پَل کوکبھی ! غضب یہ کم، کہ وہی میری دسترس میں نہیں خیال و خواب مُقدّم لیے ہے ذات اُس کی کہوں یہ کیسے کہ پَیوستہ ہر نفس میں نہیں محبّتوں میں عِنایت کا...
  11. طارق شاہ

    سودا تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں، خاک کر گئی

    مِرزا محمد رفیع سوداؔ تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی شبنم بھی اِس چمن سے صَبا چشمِ تر گئی دیوانہ کون گُل ہے تِرا، جس کو باغ میں زنجیر کرنے ، موجِ نسیمِ سَحر گئی کُچھ تو اثر قبُول کہ تجھ تک ہماری آہ سِینے سے ارمغاں لیے لختِ جِگر گئی نّظارہ باز بزمِ بُتاں کا ہُوں، جیسے مَیں تُو ہی...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: غم نہیں اِس کا ہم مَرے ہی جیئے ::::Shafiq- Khalish

    غزل شفیق خلشؔ غم نہیں اِس کا ہم مَرے ہی جیئے مُطمئن اِس پہ ہیں کھرے ہی جیئے اُن سے اِظہار سے ڈرے ہی جیئے اب کِیا، اب کِیا کرے ہی جیئے عُمر بھر وصل کی اُمید پہ سر اُن کی دہلیز پر دَھرے ہی جیئے ہم وہ ممنُونِ خوش تخیّل ہیں اُن کو بانہوں میں جو بَھرے ہی جیئے کب سپاٹ اُن کا تھا چَلن مجھ سے...
  13. طارق شاہ

    راشد آزرؔ ::::چاہت تمھاری سینے پہ کیا گُل کتر گئی ::::RASHID -AAZAR

    غزل راشد آذر چاہت تمھاری سینے پہ کیا گُل کتر گئی کِس خوش سَلِیقگی سے جگِر چاک کر گئی رکھی تھی جو سنبھال کے تُو نے سلامتی وہ تیرے بعد کس کو پتا ، کس کے گھر گئی جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک اک لمحۂ خَفِیف میں یکسر بکِھر گئی بھٹکے ہُوئے تھے ایسے کہ گردِسفر کو ہم مُڑ مُڑ کے دیکھتے رہے،...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی:::::Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلشؔ میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی اُس سے ہر وقت رہی اُن کی گفتگو نے کی کس سَہارے ہو بَسر اپنی زِندگی، کہ ہَمَیں اِک بَدی تک، نہیں تفوِیض نیک خُو نے کی باغ میں یاد لِیے آئی تو فریب دِیئے! دِیدَنی تھی مِری حالت جو رنگ و بُو نے کی ترکِ اُلفت کی تھی تحریک، شرمسار ہُوئی! کُو بہ...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: کب تمنّا رہی، گمنام اُنھیں رہنے کی:::::Shafiq Khalish

    غزل کب تمنّا رہی، گمنام اُنھیں رہنے کی پائی فِطرت تھی نہ اپنوں کو ذرا سہنے کی دی جو تجوِیز اُنھیں ساتھ کبھی رہنے کی بولے! ہّمت ہُوئی کیسے یہ ہَمَیں کہنے کی بات ویسے بھی تھی سِینے میں نہیں رہنے کی گرچہ سوچا تھا کئی بار نہیں کہنے کی ذہن چاہے کہ اُڑان اپنی ہو آفاق سے دُور دِل میں خواہش کبھی...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے:::shafiq khalish

    راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص! رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ! کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے:::::shafiq khalish

    راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص! رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ! کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
  18. طارق شاہ

    نکہت بریلوی:: رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا

    غزل نِکہت بَریلوی رَہِ وَفا کے ہر اِک پَیچ و خَم کو جان لیا جُنوں میں دشت و بَیاباں تمام چھان لیا ہر اِک مقام سے ہم سُرخ رُو گزر آئے قدم قدم پہ محبّت نے اِمتحان لیا گراں ہُوئی تھی غَمِ زندگی کی دُھوپ، مگر کسی کی یاد نے اِک شامیانہ تان لیا تمھیں کو چاہا بہرحال، اور تمھارے سِوا زمین...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا:::::shafiq khalish

    غزل عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا! وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی اس پہ کیا تکرار وُرُودِ صبح پہ تم نے بھی کُچھ...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے::::shafiq khalish

    غزل چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے ! ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں کُچھ اِس طرح...
Top