طارق شاہ
محفلین
غزل
احسان دانشؔ
یہ تو نہیں کہ تُم سے محبّت نہیں مُجھے
اِتنا ضرُور ہے کہ شِکایت نہیں مجھے
میں ہُوں، کہ اِشتیاق میں سر تا قَدم نَظر
وہ ہیں کہ ،ِاک نَظر کی اِجازت نہیں مجھے
آزادئِ گُناہ کی حسرت کے ساتھ ساتھ
آزادئِ خیال کی جُرأت نہیں مجھے
دَوبھر ہے گرچہ جَور ِعَزِیزاں سے زندگی
لیکن خُدا گواہ، شِکایت نہیں مجھے
جس کا گُریز شرط ہو، تقریبِ دِید میں!
اُس ہوش، اُس نَظر کی، ضرورت نہیں مجھے
جو کُچھ گُزر رہی ہے، غَنِیمت ہے ہم نَشِیں
اب زندگی پہ غَور کی فُرصت نہیں مجھے
میں کیوں، کسی کے عہدِ وَفا کا یَقیں کرُوں
اِتنی شَدِید غم کی ضرورت نہیں مجھے
سجدے مِرے خیالِ جَزا سے ہیں ماوَرا
مقصُود بندگی سے تجارت نہیں مجھے
میں اور دے سکوُں نہ تِرے غم کو زندگی
ایسی تو، زندگی سے محبّت نہیں مجھے
احسانؔ !کون مُجھ سے سوا ہے مِرا عدُو
اپنےسِوا، کسی سے شِکایت نہیں مجھے
احسان دانشؔ
احسان دانشؔ
یہ تو نہیں کہ تُم سے محبّت نہیں مُجھے
اِتنا ضرُور ہے کہ شِکایت نہیں مجھے
میں ہُوں، کہ اِشتیاق میں سر تا قَدم نَظر
وہ ہیں کہ ،ِاک نَظر کی اِجازت نہیں مجھے
آزادئِ گُناہ کی حسرت کے ساتھ ساتھ
آزادئِ خیال کی جُرأت نہیں مجھے
دَوبھر ہے گرچہ جَور ِعَزِیزاں سے زندگی
لیکن خُدا گواہ، شِکایت نہیں مجھے
جس کا گُریز شرط ہو، تقریبِ دِید میں!
اُس ہوش، اُس نَظر کی، ضرورت نہیں مجھے
جو کُچھ گُزر رہی ہے، غَنِیمت ہے ہم نَشِیں
اب زندگی پہ غَور کی فُرصت نہیں مجھے
میں کیوں، کسی کے عہدِ وَفا کا یَقیں کرُوں
اِتنی شَدِید غم کی ضرورت نہیں مجھے
سجدے مِرے خیالِ جَزا سے ہیں ماوَرا
مقصُود بندگی سے تجارت نہیں مجھے
میں اور دے سکوُں نہ تِرے غم کو زندگی
ایسی تو، زندگی سے محبّت نہیں مجھے
احسانؔ !کون مُجھ سے سوا ہے مِرا عدُو
اپنےسِوا، کسی سے شِکایت نہیں مجھے
احسان دانشؔ