کلاسیکل شاعری

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: دیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلا دِیا::: Shafiq Khalis

    غزل دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا! جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب! خط میرے نام لکھ کے جب...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش :::کرب چہرے کا چھپاتے کیسے::::Shafiq-Khalish

    غزل کرب چہرے کا چھپاتے کیسے پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے مسکراہٹ سی سجاتے کیسے بعد مُدّت کی خبرگیری پر اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے دوستی میں رہے برباد نہ کم دشمنی کرتے نبھاتے کیسے خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے ظاہر اُن پر ہُوئیں...
  3. طارق شاہ

    مرزا حامدؔ لکھنوی::::: تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے :::::Mirza -Hamid -Lakhnavi

    غزل مرزا حامدؔ لکھنوی تدبیرِ سکُونِ دِلِ ناکام نہیں ہے تیروں کی زبانی کوئی پیغام نہیں ہے اب کوئی علاجِ دِلِ ناکام نہیں ہے آرام کا کیا ذکر ، کہ آرام نہیں ہے سہما ہُوا دِل، دیتا ہے یہ کہہ کے ٹہوکے ! ہو جس کی سَحَر خیر سے ، وہ شام نہیں ہے شورِیدہ سَرِی پُوچھ نہ تدبِیرِ رہائی اب کام یہ...
  4. طارق شاہ

    یاس مرزا یاسؔ، یگاؔنہ، چنگیزیؔ:::::خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو :::::yas, yagana,changezi

    غزل خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
  6. طارق شاہ

    اکبر الہ آبادی :::::دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں::::::::::Akbar -Allahabadi

    غزل اکبؔر الٰہ آبادی دِل زِیست سے بیزار ہے،معلُوم نہیں کیوں سینے پہ نَفَس بار ہے، معلُوم نہیں کیوں اِقرارِ وَفا یار نے ہر اِک سے کِیا ہے مُجھ سے ہی بس اِنکار ہے، معلُوم نہیں کیوں ہنگامۂ محشر کا تو مقصوُد ہے معلُوم دہلی میں یہ دربار ہے، معلوم نہیں کیوں جِس سے دِلِ رنجُور کو ،پہونچی ہے اذِیّت...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
  8. طارق شاہ

    آتش خواجہ حیدر علی::::: چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلوم ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

    غزل خواجہ حیدر علی آتشؔ چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے! بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا عیاں کو جانتے...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کوئی دستور، یا رواج تو ہو:::::Shafiq-Khalish

    غزل کوئی دستور، یا رواج تو ہو عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو مُنتظر روز و شب رہیں کب تک! ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو بس اُمید اور آس کب تک یُوں! حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو ہم نہ...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی:::::Shafiq-Khalish

    غزل شفیق خلشؔ پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی ! لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی! پہلی غَزل کی داد بہت دُور...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے:::::Shafiq-Khalish

    غزل جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے! اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے! گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ ! مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
  12. طارق شاہ

    میر تقی مِیؔر ::::::مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف::::::Mir -Taqi -Mir

    غزل میرتقی میؔر مَیلانِ دِل ہے زُلفِ سِیہ فام کی طرف جاتا ہے صید آپ سے اِس دام کی طرف دِل اپنا عدلِ داورِ محشر سے جمع ہے کرتا ہے کون عاشقِ بدنام کی طرف اِس پہلُوئے فِگار کو بستر سے کام کیا مُدّت ہُوئی، کہ چُھوٹی ہے آرام کی طرف یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو ،سو اب مُدام رہتی ہے چشمِ ماہ تِرے بام...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے:::::Shafiq-Khalish

    غزل غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا تھی...
  14. طارق شاہ

    صفیؔ لکھنوی:::::ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا:::::Safi- Lakhnavi

    غزل صفؔی لکھنوی ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا دِلِ اِنساں میں، جو ہو شوق شناسائ کا موت ہی قصد نہ کرتی جو مسیحائ کا کون پُرساں تھا مَرِیضِ شَبِ تنہائ کا میری خوشبُو سے ہیں، آزاد ہَوائیں لبریز عطرِ دامن ہُوں قبائے گُلِ صحرائ کا تا سَحر چشمِ تصوُّر میں رہی اِک تصوِیر دِل سے ممنُون ہُوں...
  15. طارق شاہ

    عدم عبدالحمید عدمؔ:::::دِل تھا ،کہ پُھول بَن کے بِکھرتا چلا گیا:::::Abdul -Hameed- Adam

    غزل عبدالحمید عدمؔ دِل تھا ،کہ پُھول بَن کے بِکھرتا چلا گیا تصوِیر کا جمال اُبھرتا چلا گیا شام آئی، اور آئی کچھ اِس اہتمام سے! وہ گیسُوئے دراز بِکھرتا چلا گیا غم کی لکیر تھی کہ، خوُشی کا اُداس رنگ ہر نقش آئینے میں اُبھرتا چلا گیا ہر چند، راستے میں تھے کانٹے بچھے ہُوئے جس کو تیری طلب تھی...
  16. طارق شاہ

    آتش خواجہ حیدر علی:::::عِشق کے سَودے سے پہلے دردِ سر کوئی نہ تھا ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

    غزل خواجہ حیدر علی آتشؔ عِشق کے سَودے سے پہلے دردِ سر کوئی نہ تھا داغِ دِل خندہ زن، زخمِ جِگر کوئی نہ تھا جوہری کی آنکھ سے دیکھے جواہر بیشتر لعلِ لب سالعل، دنداں سا گُہر کوئی نہ تھا خوب صُورت یُوں تو بہتیرے تھے، لیکن یار سا! نازنیں، نازک بدن، نازک کمر کوئی نہ تھا رہ گئی دِل ہی میں اپنے حسرتِ...
  17. طارق شاہ

    آتش خواجہ حیدر علی آتؔش ::::: خُدا کرے نہ تمھیں میرے حال سے واقف ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

    غزل خواجہ حیدر علی آتشؔ خُدا کرے نہ تمھیں میرے حال سے واقف نہ ہو مزاجِ مبارک ملال سے واقف نہیں جو روز شب وماہ وسال سے واقف وہی ہے خُوب زمانےکے حال سے واقف زباں سے کِس کی مہِ چاردہ نہیں سُنتے! زمانہ ہے تِرے فضل و کمال سے واقف دُعائے خیر ، یہی ہے مری حَسِینوں کو نہ ہو کمال تمھارا زوال سے واقف...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا :::::: Shafiq-Khalish

    غزل روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا ایک صُورت دِلِ وِیراں میں بَسائے رکھنا خوش تصوّر سے ہر اِک غم کو دبائے رکھنا کوئی اُمّید، ہمہ وقت لگائے رکھنا بات سیدھی بھی ، معمّا سا بنائے رکھنا! دِل کے جذبات کو عادت تھی چھپائے رکھنا ڈر سے، ظاہر نہ مِرا اِضطراب اُن پر ہو کہیں! ایک...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::ہمقدم پھر جو یار ہو جائے:::::: Shafiq-Khalish

    غزل ہمقدم پھر جو یار ہو جائے ہر فِضا سازگار ہو جائے گُل کے دیکھے پہ یاد سے اُس کی! جی عجب بےقرار ہو جائے اب بھی خواہش، کہ وہ کسی قیمت ہم خیال ایک بار ہو جائے حاصلِ دِید سے حصُول کا ایک بُھوت سر پر سوار ہو جائے ایسے چہرے نقاب میں ہی بَھلے جِن کو دیکھو تو پیار ہوجائے خامشی خُوب یُوں...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا:::::: Shafiq-Khalish

    غزل آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا! کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا بَن کے راحت رہے خیالوں میں بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی! ظُلم پر جب بھی...
Top