سودا تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں، خاک کر گئی

طارق شاہ

محفلین
مِرزا محمد رفیع سوداؔ

تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی
شبنم بھی اِس چمن سے صَبا چشمِ تر گئی

دیوانہ کون گُل ہے تِرا، جس کو باغ میں
زنجیر کرنے ، موجِ نسیمِ سَحر گئی

کُچھ تو اثر قبُول کہ تجھ تک ہماری آہ
سِینے سے ارمغاں لیے لختِ جِگر گئی

نّظارہ باز بزمِ بُتاں کا ہُوں، جیسے مَیں
تُو ہی پڑا نظر میں، جِدھر بھی نظر گئی

مت پُوچھ یہ کہ رات کٹی کیونکہ تجھ بغیر
اِس گفتگو سے فائدہ، پیارے گزر گئی

سودا! فغاں کو خط یہ لکھا اُس کے یار نے
جس وقت اِس کے حال کی ، اُس کو خبر گئی

مِرزا محمد رفیع سوداؔ
 
Top