شفیق خلش :::: غم نہیں اِس کا ہم مَرے ہی جیئے ::::Shafiq- Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خلشؔ
غم نہیں اِس کا ہم مَرے ہی جیئے
مُطمئن اِس پہ ہیں کھرے ہی جیئے

اُن سے اِظہار سے ڈرے ہی جیئے
اب کِیا، اب کِیا کرے ہی جیئے

عُمر بھر وصل کی اُمید پہ سر
اُن کی دہلیز پر دَھرے ہی جیئے

ہم وہ ممنُونِ خوش تخیّل ہیں
اُن کو بانہوں میں جو بَھرے ہی جیئے

کب سپاٹ اُن کا تھا چَلن مجھ سے
ساتھ میرے وہ کُھردَرے ہی جیئے

سوچ کر خوف سے نجات مِلی!
کیا گرفت اپنی جب مَرے ہی جیئے

درسِ عِبرت ہو شخصیّت اُس کی
نفرتیں خود میں جو بَھرے ہی جیئے

کیا غَرِیب الوَطن کا عُذر ، کہ جب
ہم وَطن میں بھی یُوں مَرے ہی جیئے

یاد کب کم رہی وہ تکیۂ زِیست
جس پہ سر اپنا ہم دَھرے ہی جیئے

مد میں تھا ہجر کا وہ اِستِحصال
خواہشِ قُرب میں مَرے ہی جیئے

تہہ چڑھی یُوں خلِشؔ پہ اُلفت کی!
زرد موسم میں بھی ہَرے ہی جیئے

لاکھ سمجھانے پر بھی سب کے، خلِشؔ
عِشق میں اُن کی سر پِِھرے ہی جیئے

شفیق خلشؔ
 
Top