غزل
بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے
تو وجہ کیا کوئی باقی ہو دِل میں ڈر کے لیے
طَلَب ذرا نہ ہو تکیہ کی عُمر بھر کے لیے!
مُیَسّر اُن کا ہو زانُو جو میرے سر کے لیے
تمنّا دِل میں کہاں اب کسی بھی گھر کے لیے
نہیں ہے چاند مُیسّر جو بام و دَر کے لیے
کوئی بھی پیار ہو، اِظہار سے عِبارت ہے!
کریں...
غزل
شفیق خلشؔ
حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں!
انا کا پاس کرُوں کیا، کہ دِل ہی بس میں نہیں
جُدا ہُوا نہیں مجھ سے ، جو ایک پَل کوکبھی !
غضب یہ کم، کہ وہی میری دسترس میں نہیں
خیال و خواب مُقدّم لیے ہے ذات اُس کی
کہوں یہ کیسے کہ پَیوستہ ہر نفس میں نہیں
محبّتوں میں عِنایت کا...
غزل
شفیق خلشؔ
غم نہیں اِس کا ہم مَرے ہی جیئے
مُطمئن اِس پہ ہیں کھرے ہی جیئے
اُن سے اِظہار سے ڈرے ہی جیئے
اب کِیا، اب کِیا کرے ہی جیئے
عُمر بھر وصل کی اُمید پہ سر
اُن کی دہلیز پر دَھرے ہی جیئے
ہم وہ ممنُونِ خوش تخیّل ہیں
اُن کو بانہوں میں جو بَھرے ہی جیئے
کب سپاٹ اُن کا تھا چَلن مجھ سے...
غزل
شفیق خلِشؔ
ہر مُصیبت جو کھڑی کی اُنھی کے خُو نے کی
اُس پہ ہَٹ دھرمی ہر اِک بار یہ، کہ تُو نے کی
شرم دُورآنکھوں سے اپنوں کی ہائے ہُو نے کی
اور کچھ، اَوچھوں سے تکرار و دُو بَدُو نے کی
اِک جہاں کی رہی خواہش سی مجھ سے مِلنے کی
یُوں مِرے عِشق کی تشہیر ماہ رُو نے کی
کچھ تو پُر برگ و...
غزل
شفیق خلشؔ
میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی
اُس سے ہر وقت رہی اُن کی گفتگو نے کی
کس سَہارے ہو بَسر اپنی زِندگی، کہ ہَمَیں
اِک بَدی تک، نہیں تفوِیض نیک خُو نے کی
باغ میں یاد لِیے آئی تو فریب دِیئے!
دِیدَنی تھی مِری حالت جو رنگ و بُو نے کی
ترکِ اُلفت کی تھی تحریک، شرمسار ہُوئی!
کُو بہ...
غزل
شفیق خلشؔ
قربان حسرتوں پہ کبھی دِل کی چاہ پر
لا پائے خود کو ہم نہ کبھی راست راہ پر
اِک معتبر خوشی نہیں یادوں کی آہ پر
نادم نہیں ہیں پھر بھی ذرا تیری چاہ پر
ٹہلے نہ یُوں گلی سے عقُوبت کے باوجُود
آنکھیں ہی جَم گئی تھیں رُخِ رشکِ ماہ پر
حاصِل پہ اِطمینان کب اِک تِیرِ غم کو تھا !
برسے سب بار...
راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے
جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے
کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص!
رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے
تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ
جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے
ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ!
کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
راغب ہو کہاں دِل نہ جو مطلب ہو خُدا سے
جب کیفیت ایسی ہو، تو کیا ہوگا دُعا سے
کب راس رہا اُن کو جُداگانہ تشخّص!
رافِل رہے ہر اِک کو وہ، گفتار و ادا سے
تقدیر و مُکافات پہ ایمان نہیں کُچھ
جائز کریں ہر بات وہ آئینِ وَفا سے
ہر نعمتِ قُدرت کو رہا اُن سے علاقہ!
کب زُلف پریشاں نہ ہُوئی دستِ صبا...
غزل
عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا
وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا
یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا
کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا
جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا!
وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا
ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی اس پہ کیا تکرار
وُرُودِ صبح پہ تم نے بھی کُچھ...
غزل
مُسابَقَت میں مزہ کوئی دَم نہیں ہوتا
ذرا جو فِطرَتِ آہُو میں رَم نہیں ہوتا
یہ لُطف، عِشق و محبّت میں کم نہیں ہوتا!
بہت دِنوں تک کوئی اور غم نہیں ہوتا
دِلوں کے کھیل میں سب حُکم دِل سے صادِر ہوں
زماں کا فیصلہ یکسر اَہَم نہیں ہوتا
تمھارے ساتھ گُزارے وہ چند لمحوں کا
ذرا سا کم کبھی لُطفِ...
غزل
چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے
غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے
کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے !
ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے
کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب
تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے
ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں
کُچھ اِس طرح...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا!
جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا
تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب!
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
کرب چہرے کا چھپاتے کیسے
پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے
ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے
مسکراہٹ سی سجاتے کیسے
بعد مُدّت کی خبرگیری پر
اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے
دوستی میں رہے برباد نہ کم
دشمنی کرتے نبھاتے کیسے
خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست
وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے
ظاہر اُن پر ہُوئیں...
غزل
کوئی دستور، یا رواج تو ہو
عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو
کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو
روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو
مُنتظر روز و شب رہیں کب تک!
ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو
بس اُمید اور آس کب تک یُوں!
حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو
دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک
محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو
ہم نہ...
غزل
شفیق خلشؔ
پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی
خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی
نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو
اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی
ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی !
لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی
منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی!
پہلی غَزل کی داد بہت دُور...
غزل
جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے!
اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے
نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے
بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے
گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے!
گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے
قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ !
مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
غزل
غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے
کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے
مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا
کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے
کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں
خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے
کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا
تھی...
غزل
روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا
ایک صُورت دِلِ وِیراں میں بَسائے رکھنا
خوش تصوّر سے ہر اِک غم کو دبائے رکھنا
کوئی اُمّید، ہمہ وقت لگائے رکھنا
بات سیدھی بھی ، معمّا سا بنائے رکھنا!
دِل کے جذبات کو عادت تھی چھپائے رکھنا
ڈر سے، ظاہر نہ مِرا اِضطراب اُن پر ہو کہیں!
ایک...
غزل
ہمقدم پھر جو یار ہو جائے
ہر فِضا سازگار ہو جائے
گُل کے دیکھے پہ یاد سے اُس کی!
جی عجب بےقرار ہو جائے
اب بھی خواہش، کہ وہ کسی قیمت
ہم خیال ایک بار ہو جائے
حاصلِ دِید سے حصُول کا ایک
بُھوت سر پر سوار ہو جائے
ایسے چہرے نقاب میں ہی بَھلے
جِن کو دیکھو تو پیار ہوجائے
خامشی خُوب یُوں...
غزل
آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا
دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا
ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا
پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا
کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا!
کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا
بَن کے راحت رہے خیالوں میں
بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا
شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی!
ظُلم پر جب بھی...