طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلشؔ
کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو
سُن کر بھی یُوں رہیں وہ کہ جیسے خبر نہ ہو
شرمِندۂ عَمل ہُوں کہ صرفِ نظر نہ ہو
دِل سے وہ بے بسی ہے کہ صُورت دِگر نہ ہو
کوشش رہے اگرچہ، کوئی لمحۂ حیات!
خود میں خیال اُن کا لیے جلوہ گر نہ ہو
اِک اِلتماس تجھ سے بھی ایّامِ خُوب رفت!
صُحبت میں اُن کی آنے پہ بیداد گر نہ ہو
اب فصلِ اِنبِساط کا اِمکان تک نہیں
جیسا کہ عِشق، زیست میں بارِ دِگر نہ ہو
اُن سے مقابلہ پہ تاَسُّف ہی تھا ہمیش
کیا ہوخوشی وہ فتح کی جو سربسر نہ ہو
سچ جو تباہ حالی پہ اپنی کہُوں خلشّ !
دِکھنے میں کوئی شکل سے معصُوم تر نہ ہو
شفیق خلشؔ
شفیق خلشؔ
کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو
سُن کر بھی یُوں رہیں وہ کہ جیسے خبر نہ ہو
شرمِندۂ عَمل ہُوں کہ صرفِ نظر نہ ہو
دِل سے وہ بے بسی ہے کہ صُورت دِگر نہ ہو
کوشش رہے اگرچہ، کوئی لمحۂ حیات!
خود میں خیال اُن کا لیے جلوہ گر نہ ہو
اِک اِلتماس تجھ سے بھی ایّامِ خُوب رفت!
صُحبت میں اُن کی آنے پہ بیداد گر نہ ہو
اب فصلِ اِنبِساط کا اِمکان تک نہیں
جیسا کہ عِشق، زیست میں بارِ دِگر نہ ہو
اُن سے مقابلہ پہ تاَسُّف ہی تھا ہمیش
کیا ہوخوشی وہ فتح کی جو سربسر نہ ہو
سچ جو تباہ حالی پہ اپنی کہُوں خلشّ !
دِکھنے میں کوئی شکل سے معصُوم تر نہ ہو
شفیق خلشؔ