واشنگٹن ڈی سی

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کوئی دستور، یا رواج تو ہو:::::Shafiq-Khalish

    غزل کوئی دستور، یا رواج تو ہو عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو مُنتظر روز و شب رہیں کب تک! ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو بس اُمید اور آس کب تک یُوں! حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو ہم نہ...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی:::::Shafiq-Khalish

    غزل شفیق خلشؔ پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی ! لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی! پہلی غَزل کی داد بہت دُور...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے:::::Shafiq-Khalish

    غزل جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے! اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے! گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ ! مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے:::::Shafiq-Khalish

    غزل غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا تھی...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا :::::: Shafiq-Khalish

    غزل روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا ایک صُورت دِلِ وِیراں میں بَسائے رکھنا خوش تصوّر سے ہر اِک غم کو دبائے رکھنا کوئی اُمّید، ہمہ وقت لگائے رکھنا بات سیدھی بھی ، معمّا سا بنائے رکھنا! دِل کے جذبات کو عادت تھی چھپائے رکھنا ڈر سے، ظاہر نہ مِرا اِضطراب اُن پر ہو کہیں! ایک...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::ہمقدم پھر جو یار ہو جائے:::::: Shafiq-Khalish

    غزل ہمقدم پھر جو یار ہو جائے ہر فِضا سازگار ہو جائے گُل کے دیکھے پہ یاد سے اُس کی! جی عجب بےقرار ہو جائے اب بھی خواہش، کہ وہ کسی قیمت ہم خیال ایک بار ہو جائے حاصلِ دِید سے حصُول کا ایک بُھوت سر پر سوار ہو جائے ایسے چہرے نقاب میں ہی بَھلے جِن کو دیکھو تو پیار ہوجائے خامشی خُوب یُوں...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا:::::: Shafiq-Khalish

    غزل آشنا دست بر دُعا نہ ہُوا دِل سے میرے ذرا جُدا نہ ہُوا ذکرِ عِشق اُن سے برمَلا نہ ہُوا پیار بڑھنے کا سِلسِلہ نہ ہُوا کیا کہُوں اُن کے عَزْم و وَعدوں کا! کُچھ بھی قَسموں پہ دَیرپا نہ ہُوا بَن کے راحت رہے خیالوں میں بس مِلَن کا ہی راستہ نہ ہُوا شے مِلی اِس سے، اَور کرنے کی! ظُلم پر جب بھی...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ ،کوئی راہ تو ہو:::::: Shafiq-Khalish

    غزل ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ کوئی راہ تو ہو جَتن کو اپنی نظر میں ذرا سی چاہ تو ہو قیاس و خوف کی تادِیب و گوشمالی کو شُنِید و گُفت نہ جو روز، گاہ گاہ تو ہو یُوں مُعتَبر نہیں اِلزامِ بیوفائی کُچھ دِل و نَظر میں تسلّی کو اِک گواہ تو ہو سِسک کے جینے سے بہتر مُفارقت ہونَصِیب! سِتم سے اپنوں کے...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں:::::: Shafiq-Khalish

    غزل وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں جُوں ہی موقع مِلے طُوفان اُٹھا دیتے ہیں خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں لیکن اسباب تماشہ...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے:::::: Shafiq-Khalish

    غزل لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے جُھوٹے دِلاسے دے کےسب احباب تھک گئے یادیں تھیں سَیلِ غم سے وہ پُرآب تھک گئے رَو رَو کے اُن کے ہجر میں اعصاب تھک گئے خوش فہمیوں کےڈھوکے ہم اسباب تھک گئے آنکھوں میں بُن کے روز نئے خواب تھک گئے جی جاں سے یُوں تھے وصل کو بیتاب تھک گئے رکھ کر خیالِ خاطر و...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو:::::: Shafiq-Khalish

    غزل ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو پھر بہار آئے میرے کانوں پر! پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو اب میسّر کہاں سہولت وہ ! اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو ہاتھ چھوڑے بھی اِک زمانہ ہُوا اُس کی دُوری کا کچھ تو کم غم ہو مِلنےآتے بھی ہیں، تو ایسے خلشؔ! جیسے، دِل اُن...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کُھلے بھی کُچھ، جو تجاہُل سے آشکار کرو!::::::Shafiq -Khalish

    غزل شفیق خلشؔ کُھلے بھی کُچھ، جو تجاہُل سے آشکار کرو! زمانے بھر کو تجسّس سے بیقرار کرو لکھا ہے رب نے ہمارے نصیب میں ہی تمھیں قبول کرکے، محبّت میں تاجدار کرو نہ ہوگی رغبتِ دِل کم ذرا بھی اِس سے کبھی! بُرائی ہم سے تُم اُن کی، ہزار بار کرو یُوں اُن کے کہنے نے چھوڑا نہیں کہیں کا ہَمَیں مَیں لَوٹ...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::خواہش حصُولِ یار کا اِک زِینہ ہی تو ہے::::::Shafiq -Khalish

    غزل خواہش،حصُولِ یار کا اِک زِینہ ہی تو ہے سُود و زیاں کا زِیست میں تخمینہ ہی تو ہے حاصل ہو حُسنِ نسواں کو جس سے غضب وقار ملبُوس سردیوں کا وہ پشمینہ ہی تو ہے ایسا نہیں کہ آج ہی آیا ہَمَیں خیال پانا اُنھیں ہی خواہشِ دیرینہ ہی تو ہے بڑھ چڑھ کے ہے دباؤ غمِ ہجر کے شُموُل ڈر ہے کہ پھٹ نہ جائے...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::رغبت ِ دِل کوزمانے سے چُھپایا تھا بہت :::::Shafiq -Khalish

    غزل رغبت ِ دِل کوزمانے سے چُھپایا تھا بہت لیکن اُس ضبطِ محبّت نے رُلایا تھا بہت دسترس نے بھی تو مٹّی میں مِلایا تھا بہت جب تماشا دِلی خواہش نے بنایا تھا بہت بے بسی نے بھی شب و روز رُلایا تھا بہت خواہشِ ماہ میں جی اپنا جلایا تھا بہت کُچھ تو کم مایَگی رکھّے رہی آزردہ ہَمَیں! کُچھ ہَمَیں اُس کی...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے:::::Shafiq -Khalish

    غزل سبھی سوالوں کے ہم سے جواب ہو نہ سکے کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے عَمل سب باعثِ اجر و ثَواب ہو نہ سکے دَوائے درد و دِلی اِضطراب، ہو نہ سکے رہے گراں بہت ایّام ِہجر جاں پہ مگر! اُمیدِ وصل سے حتمی عذاب ہو نہ سکے بَدل مہک کا تِری، اے ہماری نازوجِگر ! کسی وَسِیلہ سُمن اور گُلاب ہو نہ...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے:::::Shafiq -Khalish

    غزل خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے اُن سے کیا کیا چُھپائے رکّھا ہے ڈر نے ہَوّا بنائے رکّھا ہے کہنا کل پر اُٹھائے رکھا ہے مُضطرب دِل نے آج پہلے سے کُچھ زیادہ ستائے رکّھا ہے مِل کے یادوں سے تیری، دِل نے مِرے اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے تیری آمد کے اِشتیاق نے پِھر دِیدۂ دِل بچھائے رکّھا ہے از سَرِ...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا :::::Shafiq -Khalish

    غزل دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا کُچھ روز بڑھ رہا تھا مُقابل جو لانے کو! جذبہ وہ دِل کا مَیں نے تَھپک کر سُلادِیا تصدیقِ بدگمانی کو باقی رہا نہ کُچھ ہر بات کا جواب جب اُس نے تُلا دِیا تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب خط میرے نام لکھ کے جب...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::اگر نِکلا کبھی گھر سے، تو اپنے ہونٹ سی نِکلا :::::: Shafiq -Khalish

    غزل اگر نِکلا کبھی گھر سے، تو اپنے ہونٹ سی نِکلا بُرا دیکھے پہ کہنا کیا مَیں غصّہ اپنا پی نِکلا بڑھانا عِشق میں اُس کے قدم بھی پَس رَوِی نِکلا کہ دل برعکس میرے، پیار سے اُس کا بَری نِکلا محبّت وصل کی خواہش سے ہٹ کر کُچھ نہ تھی ہر گز معزّز ہم جسے سمجھے، وہ ادنٰی آدمی نِکلا تصوّر نے...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::دِل بھی بَلیَوں اُچھال سکتا ہے:::::: Shafiq -Khalish

    غزل دِل بھی بَلیَوں اُچھال سکتا ہے جو تحیّر میں ڈال سکتا ہے کیا تخیّل نہ ڈھال سکتا ہے مفت آزار پال سکتا ہے خود کو بانہوں میں ڈال کر میرے اب بھی غم سارے ٹال سکتا ہے کب گُماں تھا کسی بھی بات پہ یُوں اپنی عزّت اُچھال سکتا ہے جب ہو لِکّھا یُوں ہی مُقدّر کا! تب اُسے کون ٹال سکتا ہے ذہن، غم دِل...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کُچھ مُداوا ئےغمِ ہجر بھی کرتے جاؤ:::::Shafiq -Khalish

    غزل کُچھ مُداوا ئےغمِ ہجر بھی کرتے جاؤ جُھوٹے وعدوں سے پڑے زخم تو بھرتے جاؤ کُچھ تو دامن میں خوشی جینےکی بھرتے جاؤ اِک مُلاقات ہی دہلیز پہ دھرتے جاؤ جب بھی کوشِش ہو تمھیں دِل سے مِٹانے کی کوئی بن کے لازم تم مزِید اور اُبھرتے جاؤ ہے یہ سب سارا، تمھارے ہی رویّوں کے سبب جو بتدریج اب...
Top