شفیق خلش :::::: وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں:::::: Shafiq-Khalish

طارق شاہ

محفلین
1.jpg

غزل

وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں
جُوں ہی موقع مِلے طُوفان اُٹھا دیتے ہیں

خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں
پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں

چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں
ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں

آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں
لیکن اسباب تماشہ سا بنا دیتے ہیں

درد و غم دینے کا کیا غیروں سے شکوہ، جبکہ!
خود مِرے اپنے بھی کُچھ کم نہ جُدا دیتے ہیں

چشم و لَب اُس کے تَصوّر میں ہوں تو نیند کہاں
آنکھ لگ جائے بھی تو خواب جگا دیتے ہیں

خوف لاحق رہے ہردَم ہَمَیں رُسوائی کا
غم توسّط کے ہم ایسے نہ چُھپا دیتے ہیں

ہو گُماں اُن پہ بھی احباب و اقارِب کا ہَمَیں
جب وہ دیوار سے بے وجہ لگا دیتے ہیں

اُس کی خواہش میں ہُوئے لوگ یُوں حاسد، کہ خلشؔ
بیٹھ پائیں بھی جو دَر اُس کے، اُٹھا دیتے ہیں

شفیق خلشؔ
 
Top