طارق شاہ
محفلین
غزل
جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے!
اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے
نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے
بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے
گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے!
گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے
قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ !
مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا ہے
شناخت کُچھ بھی بنائی گئی کہاں کوئی
تمھارے جانے نے گُمنام ہم کوچھوڑا ہے
گراں نہیں ہے تِرا چھوڑنا بَجُز اِس کے!
لگا کے تُہمَت و الزام ہم کو چھوڑا ہے
کُچھ اور اب نہیں باقی سِوائے ماتَم کے
فِراقِ یار نے اِک کام ہم کو چھوڑا ہے
ہمیشہ خوش رہے، جس نے کہ اپنے جانے سے
نہ ایک پل کو، با آرام ہم کو چھوڑا ہے
تعلُّقات کی دُنیا اُجاڑ دی ہے، خلشؔ!
کم ایک نام نے، بدنام ہم کو چھوڑا ہے
شفیق خلشؔ