غزل
ایک اِک کرکے، سبھی لوگ بدلتے جائیں
اپنے اطوارسے ہی، دِل سے نکلتے جائیں
راحتِ دِید کی حاجت میں اُچھلتے جائیں
اُن کے کُوچے میں انا اپنی کُچلتے جائیں
دمِ آیات سے، ہم کُچھ نہ سنبھلتے جائیں
بلکہ انفاسِ مسیحائی سے جلتے جائیں
بے سروپا، کہ کوئی عِشق کی منزِل ہی نہیں
خود نتیجے پہ پہنچ جائیں گے،...
غزل
جی کو کُچھ شہر میں بَھلا نہ لگا
جا کے احباب میں ذرا نہ لگا
درگُزر اِس سے، دِل ذرا نہ لگا
کم نہیں، اب کی کُچھ ڈرانہ لگا
کچھ اُمیدیں تھیں جس سے وابستہ !
قد سے وہ بھی ذرا بڑا نہ لگا
تھے ہم مجبوریوں سے پا بستہ
بولیے دِل کی کیا لگا نہ لگا
دِل کے رِشتوں سے جورَہا منسُوب!
میرا ہوکر وہ بارہا...
غزل
کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو
مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو
سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو
ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو
مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت
خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو
یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ
فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو
کہاں...
غزل
دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں
اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں
جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے
ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں
خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر
کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں
جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں
اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں
کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں
دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
غزل
نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے
شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے
چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے
خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے
دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب !
جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے
خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ
اُمید ملنے کی جب بھی...
غزل
اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں
بس کرم رب کا بے اماں پہ نہیں
ذکر لانا ہی اب زباں پہ نہیں
فیصلہ سُود اور زیاں پہ نہیں
دسترس یوُں بھی داستاں پہ نہیں
اِختیار اُن کے رازداں پہ نہیں
کیا جوانی تھی شہر بھر سے لئے
اِک ہجوم اب جو آستاں پہ نہیں
کچھ تو دِل اپنا فیصلوں کا مجاز !
کچھ بھروسہ بھی آسماں...
پیدا ہوں حُسن ہی سے سب اجزائے زندگی
دھڑکیں دِلوں میں شوق و تمنائے زندگی
مشکل ہی میں پڑی رہے ہر جائے زندگی
جدوجہد میں ڈر ہے نہ کٹ جائے زندگی
پیری میں حل ہو خاک کہ طاقت نہیں رہی!
ٹھہرا نہ سہل مجھ پہ مُعمّائے زندگی
فرطِ خوشی کا جن سے کہ احساس دِل کو ہو
ایسے تمام چہرے ہیں گُلہائے زندگی
وہ حُسن...
غزل
کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا
ذوق و شوق اپنے پر عتاب آیا
کیا کہیں کم نہ کچھ عذاب آیا
درمیاں جب سے ہے حجاب آیا
تب سِتم اُن کے کب شمُار میں تھے
پیار جب اُن پہ بے حساب آیا
منتظر ہم تھے گفتگو کے ، مگر
ساتھ لے کر وہ اجتناب آیا
خُونِ دل سے لکھا جو مَیں نے اُسے!
مثبت اُس کا کہاں...
سلام
تا حشر ہوگئی وہ عبادت حُسیؑن کی
بے مثل راہ ِ حق میں شہادت حُسیؑن کی
برکت غمِ حُسیؑن میں روزافزوں یوُں نہیں
مقصد سے کی خُدا نے وِلادت حُسیؑن کی
تقلِید پروَرِش میں تھی ماؤں کی کُچھ نہ کم
آئی کہاں کسی میں سعادت حُسیؑن کی
عباسؑ جاں نِثار، نہ آئے َپلٹ کے جب!
ناناؐ نے غم میں کی تھی عیادت...
غزل
شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا
چاند چہرہ مِری نظروں سے چھپائے رکھنا
اُس کی تصوِیر کو سینے سے لگائے رکھنا
غمزدہ دِل کو کسی طور لُبھائے رکھنا
چاندنی راتوں میں یاد آئے ضرُور اب اُن کا
اِک قیامت سی، سرِ بام اُٹھائے رکھنا
ولوَلے ہیں، نہ کِرن ہی کوئی اُمّید کی ہے !
اِس بُجھے دِل میں...
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...
غزل
آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دِل کی گو کرتے کہیں ہیں کم
دِل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی شرم سے کرتے نہیں ہیں نم
ایسا بُجھادِیا ہَمَیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشِش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم
اِک پَل نہ ہوں گوارہ کسی طور یُوں ہَمَیں
دِل پر سوار ہو کے...
شفیق خلش
غزل
سائے ہیں بادلوں کے وہ، چَھٹتے نہیں ذرا
لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا
کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو
گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا
کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی
دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا
سُوجھے کوئی نہ بات ہَمَیں آپ کے بغیر
موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں...
غزل
یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو
مائل بہ عِشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو
اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ اِنعام بھی تو ہو
دُشنام گو لَبوں پہ خَلِش نام بھی تو ہو!
عاشِق ہو تم، تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو
پتّھر برس رہے ہوں کہ ہو موت منتظر
اُن کا، گلی میں آنے...
غزل
شفیق خلؔش
تب اَوج پر مِری واماندگی سی ہوتی ہے
جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے
پِھر روز و شب لِئے افسُردگی سی ہوتی ہے
بس اُس کے مِلنے پہ آسودگی سی ہوتی ہے
ترس رہے ہیں ذرا سی ہنسی، خوشی کے لیے
کہ زندگی بھی نہ اب زندگی سی ہوتی ہے
دِیا سُخن کو نیا رنگ تیری فُرقت نے
اب بول چال میں...
غزل
شفیق خلؔش
دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ
ہو مِثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ
کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ
آ بسو دِل کی طرح، گھر میں بھی اے خوش اِلحان !
زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ
رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے
ہمسفرتم...
غزل
شفیق خلؔش
ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں
کیسی کیسی صُورتوں میں وقت کی آیا ہُوں میں
قُربِ محبُوباں میں اپنی نارَسائی کے سبب
گھیرکرساری اُداسی اپنے گھر لایا ہُوں میں
گو قرار آئے نہ میرے دِل کو اُن سے رُوٹھ کر
جب کہ مِلنے سے اِسی پر زخم کھا آیا ہُوں میں
بے سبب اُن سے...
غزل
کُچھ اِس سے بڑھ کےہوگا بَھلا کیا حَسِیں عِلاج
کرتے ہیں غم کا غم سے مِرے دِلنشیں عِلاج
پُر رحم دِل کے درد کا ہوگا نہیں عِلاج
رو رو کے پک رہے جو، ہو اُس کا کہِیں عِلاج
کِس کِس کی موت کا وہاں رونا رہے ، جہاں !
بالا زمِیں کے غم کا ہو زیرِ زمِیں عِلاج
انسانیت کا خون اُنہی سے ہے اب ہُوا...
کل ہماری یونیورسٹی اولڈ ڈو مینین یونیورسٹی کے آفس آف انٹر کلچرل ریلیشنس کی جانب سے نیشنل چیری بلوسم فیسٹیول کی سیلیبریشن کے لیے واشنگٹن ڈی سی تک یک روزہ بس ٹرپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تہوار کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ 1912 میں جاپان کے شہر ٹوکیو کے مئیر یوکیو اوزاکی نے واشنگٹن شہر کو 3000 (تین...