شفیق خلش :::::کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے:::::Shafiq -Khalish

طارق شاہ

محفلین
1.jpg

غزل
سبھی سوالوں کے ہم سے جواب ہو نہ سکے
کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے

عَمل سب باعثِ اجر و ثَواب ہو نہ سکے
دَوائے درد و دِلی اِضطراب، ہو نہ سکے

رہے گراں بہت ایّام ِہجر جاں پہ مگر!
اُمیدِ وصل سے حتمی عذاب ہو نہ سکے

بَدل مہک کا تِری، اے ہماری نازوجِگر !
کسی وَسِیلہ سُمن اور گُلاب ہو نہ سکے

تھی سعی سب کی ہی مقدُور بھر ڈبونے کی
یہ ہم ہی تھے، جو ذرا زیرِ آب ہو نہ سکے

تُمھارے حُسن سے نیّت یُوں ٹھہری حد پہ کہ اب
کسی بھی طَور، کسی پر خراب ہو نہ سکے

کشش عجیب ہے اُس حُسنِ بے مِثال میں اِک
ہو کوششیں بھی تو اب اجتناب ہو نہ سکے

سُنا ہے جب سے بنفسِ نفیس ہم نے اُنھیں
ذرا کسی سے کبھی لاجواب ہو نہ سکے

رہے اندھیروں میں اکثر یہ سوچتے ہیں کہ وہ
ہماری زیست کے، کیوں ماہتاب ہو نہ سکے

تَکُلّفات کی گُفت و شُنَید میں، ہم بھی
مُقابِل اُن کےکبھی بے حِجاب ہو نہ سکے

جُھلس رہے ہیں جُدائی کےتپتے صحرا میں
تمھارے بِن ذرا زیرِسحاب ہو نہ سکے

ہم اُن کے عشق میں ایسے خراب تھے، کہ خلشؔ
ذرا سا اور کسی سے خراب ہو نہ سکے

تھی اِنکساری طبیعت میں اپنی فطری خلشؔ
حسب نسب تھے! مگر ہم نواب ہو نہ سکے

شفیق خلشؔ
 
Top