طارق شاہ
محفلین
غزل
کوئی دستور، یا رواج تو ہو
عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو
کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو
روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو
مُنتظر روز و شب رہیں کب تک!
ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو
بس اُمید اور آس کب تک یُوں!
حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو
دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک
محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو
ہم نہ مذمُوم اُن کو ٹھہرائیں
دشمن اپنا مگر سماج تو ہو
بے بسی میں یہ خواہش اُٹھتی ہے
دِل پہ پہلا سا اپنا راج تو ہو
گو کنارا تھا سوچ پر یہ خلشؔ!
اُن پہ ظاہر کُچھ احتجاج تو ہو
شفیق خلشؔ