طارق شاہ
محفلین

غزل
ہمقدم پھر جو یار ہو جائے
ہر فِضا سازگار ہو جائے
گُل کے دیکھے پہ یاد سے اُس کی!
جی عجب بےقرار ہو جائے
اب بھی خواہش، کہ وہ کسی قیمت
ہم خیال ایک بار ہو جائے
حاصلِ دِید سے حصُول کا ایک
بُھوت سر پر سوار ہو جائے
ایسے چہرے نقاب میں ہی بَھلے
جِن کو دیکھو تو پیار ہوجائے
خامشی خُوب یُوں تکلّم سے!
کیوں کوئی شرمسار ہو جائے
تب کہاں بھائے ایک آنکھ سخی
جب کفایت شعار ہو جائے
غم بھی صُورت وہ یاد آنے پر!
ایک سے بے شُمار ہو جائے
ذِکر کیا اُن عنایتوں کا خلشؔ !
جن سے آنکھ اشکبار ہوجائے
شفیق خلشؔ