طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلشؔ
شفیق خلشؔ
پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی
خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی
نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو
نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو
اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی
ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی !
ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی !
لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی
منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی!
منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی!
پہلی غَزل کی داد بہت دُور تک گئی
گُم گشتہ سیپیوں کو کنارے پہ ڈُھونڈنے
گُم گشتہ سیپیوں کو کنارے پہ ڈُھونڈنے
پِھر لہرِاِجتہاد بہت دُور تک گئی
چیخ اِک سُنی گئی نہ وَطن کی کہیں کبھی
چیخ اِک سُنی گئی نہ وَطن کی کہیں کبھی
آوازِ شاد باد بہت دُور تک گئی
سب ہی شَریکِ لُطف تھے تحرِیر پر خلشؔ
سب ہی شَریکِ لُطف تھے تحرِیر پر خلشؔ
یُوں شُہرتِ سَواد بہت دُور تک گئی
شفیق خلشؔ
شفیق خلشؔ