طارق شاہ
محفلین
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا!
جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا
تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب!
خط میرے نام لکھ کے جب اُس نے کُھلا دِیا
ہو سچ سے اِجتناب وَتِیرہ نہیں خلشؔ!
تعرِیف نے مگر اُسے اکثر پُھلادِیا
شفیق خلشؔ