طارق شاہ
محفلین
غزل
شاید کہِیں بھی ایسا اِک آئینہ گر نہ ہو
اپنے ہُنر سے خود جو ذرا بَہرہ وَر نہ ہو
شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو
اپنی سُخن وَرِی میں اگر دِیدَہ وَر نہ ہو
جانے کہاں گئی مِری ترغِیبِ زندگی
جس کے بِنا حَیات یہ جیسے بَسر نہ ہو
سَیر و صَبا کے جَھونکوں کی اُمّید اب نہیں
طاری اِک ایسی شب ہے کہ، جِس کی سَحَر نہ ہو
اپنے بھی دِل کا شور سُنائی نہ دے جسے!
اِتنا بھی کوئی دَہر میں کانوں سے کر نہ ہو
کوتاہی کا ہم اپنے سر اِلزام لیں ضرور
کوشِش اُنھیں جو پانے کی مقدور بھر نہ ہو
بَد ذَوق کو بھی جانے ہیں دَرخورِ اِعتِنا
شاید ہر اِک میں ضبط کا ہم سا ہُنر نہ ہو
تحقِیر پر بھی اپنی کب باز آئے ہیں خلشؔ
اُن سا بھی کوئی عِشق میں آشُفتہ سر نہ ہو
اندیشہ ہائے دِل سے ہی پابَستہ ہُوں خلشؔ
ورنہ ہے کیا قَباحَت اگر آنکھ تر نہ ہو
شفیق خَلِشؔ
شاید کہِیں بھی ایسا اِک آئینہ گر نہ ہو
اپنے ہُنر سے خود جو ذرا بَہرہ وَر نہ ہو
شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو
اپنی سُخن وَرِی میں اگر دِیدَہ وَر نہ ہو
جانے کہاں گئی مِری ترغِیبِ زندگی
جس کے بِنا حَیات یہ جیسے بَسر نہ ہو
سَیر و صَبا کے جَھونکوں کی اُمّید اب نہیں
طاری اِک ایسی شب ہے کہ، جِس کی سَحَر نہ ہو
اپنے بھی دِل کا شور سُنائی نہ دے جسے!
اِتنا بھی کوئی دَہر میں کانوں سے کر نہ ہو
کوتاہی کا ہم اپنے سر اِلزام لیں ضرور
کوشِش اُنھیں جو پانے کی مقدور بھر نہ ہو
بَد ذَوق کو بھی جانے ہیں دَرخورِ اِعتِنا
شاید ہر اِک میں ضبط کا ہم سا ہُنر نہ ہو
تحقِیر پر بھی اپنی کب باز آئے ہیں خلشؔ
اُن سا بھی کوئی عِشق میں آشُفتہ سر نہ ہو
اندیشہ ہائے دِل سے ہی پابَستہ ہُوں خلشؔ
ورنہ ہے کیا قَباحَت اگر آنکھ تر نہ ہو
شفیق خَلِشؔ